آزادی مکمل یا ادھوری؟
















 

 



جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

کتاب کا نام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آزادی مکمل یا ادھوری؟
مصنف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا محمد مسعود ازہر
طبع اول تاطبع دہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری ۱۹۹۸ء تا جون ۲۰۰۴ء
تعداد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۷۰۰۰

طبع یازدہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دسمبر۲۰۰۵ء
تعداد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۱۰۰

قیمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روپے

ہماری جملہ مطبوعات ملنے کے پتے

مکتبہ ابن مبارک ، ۳۷حق اسٹریٹ، اردو بازار لاہور
       03214066827
مکتبہ عثمانؓ وعلی ؓ، لائٹ انڈسٹریل ایریا بہاولپور0321-4072839
مکتبۃ الایمان، دکان ۱۳۱، ندیم ٹریڈ سینٹر، عقب قصہ خوانی بازار پشاور0300-5957687
کشمیر نیوز ایجنسی، کوٹلی آزاد کشمیر05866042256
کتب خانہ رشیدیہ، مدینہ مارکیٹ، راجہ بازار راولپنڈی
اسٹاکسٹ: رحمانی کتاب گھر، دکان نمبر۲ ، لسبیلہ کراچی0300-2249928






فہرست

1۔ تعارف

2 پچاس سال پہلے کیا ہوا تھا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28
3۔ ایک سادہ سا سوال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔30
4۔ انگریز کے برصغیر چھوڑنے کے بعض اسباب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔32
5۔ مسلمانوں پر انگریز کی طرف سے مسلط کردہ تین سانپ
6۔ مذہبی فرقہ واریت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 36

7۔ علاقائیت اور لسانیت پر مبنی جاگیردارانہ نظام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 39
8۔ انگریزی نظام تعلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  40
9۔انگریزوں اور ہندوؤں کی مشترکہ سازش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔    41
10۔مسلمانوں کی دینی قیادت میں اختلاف رائے اور اس کی وجوہات
11۔علمائے حق کی ایک رائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 45
12۔علمائے حق کی دوسری رائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47
13۔ اختلاف کے لوازمات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  47
14۔ ایک بھیانک غلطی کی تصحیح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 50
15۔ اصل بات کیا تھی ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 51
16۔ ایک وضاحت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 52
17۔ علمائے کرام اور طلبہ کے تین طبقے
18۔ پہلا طبقہ، 19۔ دوسرا طبقہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 53
20۔ تیسرا طبقہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 54
21۔ اکابر کے اصل جانشین کون ہیں؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 58
22۔ انگریز کے مسلط کردہ تین سانپوں کے مقابلے میں علمائے کرام کے تین انتظامات
23۔ (پہلا انتظام) دینی مدارس کا قیام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 59
24۔ حکمرانوں کو ایک مخلصانہ مشورہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 62
25۔مدارس کے لئے تین خطرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65
26۔ پہلا خطرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65
27۔ دوسرا خطرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 69
28۔ تیسرا خطرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 70
29۔ دینی مدارس کے طلبہ کرام سے چند گزارشات
30۔عام مسلمانوں سے ایک گزارش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76
31۔ (دوسرا انتظام) توحید پر مبنی صاف ستھرا خانقاہی نظام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 77
32۔ خانقاہوں کے لئے خطرات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 80
33۔ ایک ضروری گزارش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 83
34۔ (تیسرا انتظام) دعوت و تبلیغی جماعت کا کام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 83
35۔ تبلیغی جماعت کے لئے بعض خطرات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 86
36۔ آخری گزارش
37۔ تینوں انتظامات پر ایک اجتماعی نظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 91
38۔ آخری گزارش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 94

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعارف

اللہ تعالیٰ اس مختصر سی کتاب کو قبول فرمائے۔ ۔ ۔ اور مسلمانوں کے لئے نافع بنائے۔ ۔ ۔ یہ کتاب ’’کوٹ بھلوال جیل جموں‘‘ کے ایک سیل میں لکھی گئی ۔ ۔ ۔ ’’کوٹ بھلوال‘‘ ایک گاؤں کا نام ہے جو جموں شہر سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ۔ ۔ اس گاؤں میں ’’حکومت ہندوستان‘‘ نے ’’مجاہدین‘‘ کے لئے یہ جیل قائم کی ہے۔ ۔ ۔ اس جیل میں اب تک سات سرکردہ کشمیری مجاہد ۔ ۔ ۔ شہید کئے جاچکے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے۱۹۹۲ء میں فائرنگ ہوئی ۔ ۔ ۔ جس میں ۔ ۔ ۔ پانچ ’’مجاہدین کرام‘‘ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ ۔ ۔ پھر ۱۹۹۴ء کے اواخر میں فائرنگ ہوئی ۔ ۔ ۔ سی آر پی ایف ۔ ۔ ۔ یعنی سینٹرل ریزور پولیس فورس کی سات کمپنیوں نے جیل پر دھاوا بولا۔ ۔ ۔ لاٹھی اور آنسو گیس کے بعد کاربائنوں اور لائٹ مشین گنوں سے فائرنگ کی گئی۔ ۔ ۔ اس میں ہمارے ایک محبوب دوست اور جہاد کشمیر کے نامور کمانڈر ۔ ۔ ۔ بھائی نوید انجم حکیمؒ ۔ ۔ ۔ شہید ہوگئے ۔ ۔ ۔ یہ واقعہ میری آنکھوں کے سامنے پیش آیا۔ ۔ ۔ کیونکہ ۔ ۔ ۔ میں بھی اس کا حصہ تھا۔ ۔ ۔ پھر جون ۱۹۹۹ء اس جیل کے ایک وارڈ پر وحشیانہ لاٹھی چارج ہوا ۔ ۔ ۔ اس میں ۔ ۔ ۔ امت مسلمہ کے جانباز کمانڈر ۔ ۔ ۔ اور سپاہی برادرم حافظ سجاد خان ؒ ۔ ۔ ۔ شہید کردیئے گئے ۔ ۔ ۔ اللہ پاک تمام ’’شہدائ‘‘ کی شہادت قبول فرمائے۔ ۔ ۔ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ۔ ۔ ۔ یہ جیل کافی ’’خونخوار‘‘ ہے۔

﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
اس جیل کو پہلے ’’کوٹ بھلوال جے آئی سی‘‘ کہا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ کیونکہ ۔ ۔ ۔ یہ قانونی طور پر ’’مقبوضہ جموں و کشمیر‘‘ کی خفیہ پولیس کا ’’جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر‘‘ تھا۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ اسے باقاعدہ ’’سب جیل‘‘ بنادیا گیا ۔ ۔ ۔ اور اب غالباً یہ ڈسٹرکٹ جیل بن چکی ہے ۔ ۔ ۔ ان تینوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟ یہ بات پاکستان یا ہندوستان کی جیلوں میں لمبا وقت گزارنے والے خوب جانتے ہیں ۔ ۔ ۔ قارئین کو حیرانی ہوگی کہ اب تک برصغیر کی جیلوں میں ۔ ۔ ۔ انگریز کا ڈیڑھ سو سالہ قدیم نظام رائج ہے ۔ ۔ ۔ چڑیل تو چلی گئی مگر اپنے دانت پیچھے چھوڑ گئی ۔ ۔ ۔ ہر خفیہ ادارے کے ۔ ۔ ۔ خفیہ قید خانے۔ ۔ ۔ تفتیش کے نام پر ۔ ۔ ۔ بے شمار عقوبت خانے ۔ ۔ ۔ جیلوں کا ’’انسانیت سوز‘‘ نظام ۔ ۔ ۔ اور عدالت میں پیش کئے بغیر ۔ ۔ ۔ لمبی لمبی قیدیں ۔ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ ۔ سب ’’انگریز‘‘ کے تحفے ہیں۔ ۔ ۔ کاش انگریز ’’برطانیہ‘‘ میں بھی یہی نظام نافذ کردیتا۔ ۔ ۔ یا۔ ۔ ۔ کاش برصغیر آزاد ہونے کے بعد ۔ ۔ ۔ یہاں کے حکمران اس نظام کو تبدیل کردیتے ۔ ۔ ۔ انڈیا والوں نے مجھے پانچ سال تک عدالت میں پیش کئے بغیر ۔ ۔ ۔ ’’قید سخت‘‘ میں رکھا ۔ ۔ ۔ اور پاکستان کے حکمرانوں نے بھی قانون اور عدالت کا تین چار بار کھلم کھلا مذاق اڑایا۔ ۔ ۔ پھر یہی حکمران قانون کے احترام کا درس دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور حیرانی اس پر ہے کہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ بالکل نہیں شرماتے۔ ۔ ۔ قطعاً نہیں شرماتے۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
کوٹ بھلوال جیل ۔ ۔ ۔ کافی عرصہ تک ’’ناقابل تسخیر‘‘ بنی رہی ۔ ۔ ۔ یہاں سے مجاہدین کے فرار کی دو تین منظم کوششیں ناکام ہوئیں ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ انڈین حکومت اس وہم میں مبتلا ہوگئی کہ ۔ ۔ ۔ ان کی سیکورٹی بہت مضبوط ہے ۔ ۔ ۔ ایک سکھ ڈی ایس پی نے جموں و کشمیر کی باقی جیلوں کی سیکورٹی کو ۔ ۔ ۔ دودھ ، دہی ، لسی ، اور مکھن ۔ ۔ ۔ قرار دیا ۔ ۔ ۔ اور کوٹ بھلوال جیل کی سیکورٹی کو ’’دیسی گھی‘‘ بتایا ۔ ۔ ۔ کراچی اور دیگر شہروں کے ساتھی ممکن ہے یہ مثال نہ سمجھیں ۔ ۔ ۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ۔ ۔ ۔ دودھ کو جما کر دہی بنایا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ دہی کو پانی میں ’’رگڑ جھگڑ‘‘ کر لسی بنائی جاتی ہے۔ ۔ ۔ لسی میں مندہانی چلاکر ۔ ۔ ۔ مکھن نکالا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور مکھن کو آگ پر صاف کرکے اس سے دیسی گھی بنایا جاتا ہے۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہوا کہ ۔ ۔ ۔ کوٹ بھلوال کی سیکورٹی انتہائی آخری درجے کی مضبوط ۔ ۔ ۔ اور ناقابل شکست ہے ۔ ۔ ۔ حالانکہ ۔ ۔ ۔ ایسا بالکل نہیں تھا ۔ ۔ ۔ اس جیل کی زمین کچی ۔ ۔ ۔ دیواریں کمزور ۔ ۔ ۔ اور پہرے دار شراب میں بدمست تھے ۔ ۔ ۔ ہاں قسمت میں یہی لکھا تھا کہ ۔ ۔ ۔ مجاہدین کے فرار کی کوششیں ناکام ہوجائیں ۔ ۔ ۔ اس میں ۔ ۔ ۔ سیکورٹی کی مضبوطی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ ۔ ۔ اگر آپ یہ واقعات تفصیل سے سنیں تو آپ کی بھی یہی رائے ہوگی کہ ۔ ۔ ۔ یہ سب قسمت ہی کا عمل تھا۔ ۔ ۔ بہرحال ۔ ۔ ۔ کچھ بھی تھا ۔ ۔ ۔ حکومت انڈیا بہت خوش تھی ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے ’’ایک مجاہد‘‘ کے ذریعہ اس خوشی اور غرور کو توڑ دیا۔ ۔ ۔ سیالکوٹ کے رہائشی ، پاکستان آرمی کے سابق کمانڈو ، ہمارے مخلص دوست ۔ ۔ ۔ کمانڈر خالد شہیدؒ ۔ ۔ ۔ دو دیگر افراد کے ہمراہ ۔ ۔ ۔ اس جیل سے فرار ہوکر ۔ ۔ ۔ اپنے گھر پہنچ گئے ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کہرام بپا ہوگیا ۔ ۔ ۔ صوبائی وزیر نے جیل کا دورہ کیا ۔ ۔ ۔ سپرنٹنڈنٹ سمیت اکثر عملہ معطل کردیا گیا ۔ ۔ ۔ اس معاملے کی تفتیش ’’سی بی آئی‘‘ کے سپرد کی گئی جو بھارت کا قابل فخر ’’قومی تفتیشی ادارہ‘‘ ہے ۔ ۔ ۔ خالد صاحب نے یہ جیل اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ۔ ۔ ۔ اپنے زور بازو کے بل پر توڑی تھی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ تفتیشی اداروں کا فیصلہ یہی تھا کہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ دیوار سے نہیں دروازے سے بھاگے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اس کام کیلئے ’’جیل حکام‘‘ کو خریدا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مجھے یادہے کہ قندہار میں ایک مجذوب طالبان ساتھی نے کہا تھا۔ ۔ ۔ جہاز اللہ تعالیٰ گراتا ہے ۔ ۔ ۔ اور نام شیخ اسامہ بن لادن کا ہوجاتا ہے ۔ ۔ ۔ بس اسی مقولے کے مطابق ۔ ۔ ۔ جیل میں جو کچھ ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ اس میں ۔ ۔ ۔ میرا نام ضرور آجاتا تھا ۔ ۔ ۔ خالد شہیدؒ کے فرار کی ذمہ داری یا ثواب بھی ۔ ۔ ۔ حکومت انڈیا کے ذہین خفیہ جاسوسوں نے میرے نام لکھ دیا۔ ۔ ۔ اور تانے بانے یوں جوڑے کہ ۔ ۔ ۔ جیل کے مسلمان آفیسر اور سپاہی میرے پاس دم کرانے آتے تھے ۔ ۔ ۔ میں نے ان کی ذہن سازی کی ۔ ۔ ۔ اور پھر موٹی رقم دے کر ۔ ۔ ۔ ان کو پھنسا لیا۔ ۔ ۔ اور انہوں نے خالد شہید کو بھگا دیا ۔ ۔ ۔ کئی دن تک ۔ ۔ ۔ تفتیش چلتی رہی ۔ ۔ ۔ مجھے بلایا جاتا ۔ ۔ ۔ اور دہلی کے اعلیٰ دماغ ۔ ۔ ۔ میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ مغز ماری کرتے۔ ۔ ۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوا کہ ۔ ۔ ۔ تفتیش بند ہوگئی ۔ ۔ ۔ عجیب بات ہے کہ ۔ ۔ ۔ پاکستان میں بھی ’’جو کچھ‘‘ ہو جائے ۔ ۔ ۔ یہاں کے ’’اعلیٰ دماغ‘‘ پہلا تیر میری طرف پھینکتے ہیں۔ ۔ ۔ جیسے اللہ پاک کی مرضی ۔ ۔ ۔ کمانڈو خالد شہید ؒ کچھ سال پہلے ۔ ۔ ۔ کشمیر میں ایک کارروائی کے دوران شہید ہوگئے ۔ ۔ ۔ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ۔ ۔ ۔ انہوں نے ۔ ۔ ۔ رہائی کے بعد بھی ’’جہاد‘‘ جاری رکھا اور بالآخر زندان کی طرح ۔ ۔ ۔ زندگی کا حصار بھی توڑ دیا ۔ ۔ ۔ اور شہادت کی بلندیوں پر محو پرواز ہوگئے ۔ ۔ ۔ اللہ پاک ان کی ’’شہادت‘‘ کو قبول فرمائے۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
مجھے دو بار ’’کوٹ بھلوال جیل‘‘ لایا گیا ۔ ۔ ۔ پہلی بار سری نگر سے ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۴ء میں ۔ ۔ ۔ اور دوسری بار تہاڑ جیل دہلی سے ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۷ء میں ۔ ۔ ۔ پہلی بار کا قیام تین ماہ سے کچھ زائد رہا ۔ ۔ ۔ تب ہمیں کشمیری مجاہدین کے ساتھ رکھا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اس پورے عرصہ میں ۔ ۔ ۔ الحمدللہ درس قرآن پاک کا سلسلہ جاری رہا ۔ ۔ ۔ تین ماہ بعد خونریز لڑائی کے بعد ہمیں جیل سے نکال کر ۔ ۔ ۔ ڈیوڑھی کے ایک لاک اپ میں زنجیروں سے باندھ دیا گیا ۔ ۔ ۔ چوبیس گھنٹے میں ایک بار پیشاب کیلئے کھولا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ الحمدللہ ۔ ۔ ۔ ہاتھ مضبوط اور زنجیر کے عادی ہوگئے ۔ ۔ ۔ اور سب ساتھی ۔ ۔ ۔ ایک ماہ تک اپنے خون آلود کپڑوں میں ۔ ۔ ۔ زنجیر کے ساتھ بندھے۔ ۔ ۔ نماز ادا کرتے رہے ۔ ۔ ۔ ایک ماہ بعد ۔ ۔ ۔ مزید تشدد اور تفتیش کیلئے۔ ۔ ۔ تالاب تلو جموں کے عقوبت خانے لے جایا گیا ۔ ۔ ۔ پھر وہاں سے ۔ ۔ ۔ تہاڑ جیل دہلی منتقل کردیا گیا ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۷ء ۔ ۔ ۔ رمضان المبارک کی ۷ تاریخ کو ۔ ۔ ۔ خوب اچھی طرح باندھ کر ۔ ۔ ۔ جہاز کے ذریعہ ’’جموں‘‘ لایا گیا ۔ ۔ ۔ یہ سفر ایسا تھا کہ ۔ ۔ ۔ مجھے ۔ ۔ ۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی کہ قیامت کے دن ۔ ۔ ۔ انسان کو اپنے ماں باپ ، بھائی بہن ۔ ۔ ۔ اور بیوی بچوں کی فکر کیوں نہیں رہے گی ۔ ۔ ۔ قرآن پاک باربار سمجھاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ قیامت کا دن اتنا سخت ہوگا کہ ۔ ۔ ۔ انسان اپنے ماں باپ تک سے بھاگے گا ۔ ۔ ۔ اور نفسی نفسی کرے گا ۔ ۔ ۔ جی ہاں جب سانس گلے میں پہنچ جائے ۔ ۔ ۔ رگوں کا لہو دل پر موجیں مارے ۔ ۔ ۔ اور درد برداشت سے باہر ہوتو ۔ ۔ ۔ انسان ۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں سوچ سکتا ۔ ۔ ۔ اس وقت تو اسے ۔ ۔ ۔ اپنی جان بھی بری لگتی ہے ۔ ۔ ۔ قیامت کے مقابلے میں یہ ایک ادنیٰ سی مثال تھی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ بات خوب سمجھ میں آگئی ۔ ۔ ۔ یااللہ قیامت کی شدت اور ہولناکی میں ہم کمزوروں کی مدد فرما ۔ ۔ ۔ اور اس دن کو ہمارے لئے آسان فرما۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
۱۹۹۷ء کے رمضان میں یہاں آئے تھے ۔ ۔ ۔ اس بار ۔ ۔ ۔ ہمارے لئے الگ رہنے کا انتظام تھا ۔ ۔ ۔ اور سولہ سیلوں پر مشتمل ایک نئی بارک خاص ہمارے لئے تعمیر کی گئی تھی ۔ ۔ ۔ حکومت کا خیال تھا کہ ۔ ۔ ۔ ہم پاکستانی قیدی کشمیریوں کی ذہن سازی کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور انہیں انڈیا کا مخالف بناتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہم بلاک نمبر۱۲ میں تھے ۔ ۔ ۔ ہمارے پڑوس میں بلاک نمبر۱۳ بھی نیا بنا تھا۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹ء تک ہم سب پاکستانی بلاک نمبر۱۲ ہی میں رہے ۔ ۔ ۔ مگر اسی سال ہمارے کچھ ساتھیوں کو ۔ ۔ ۔ پڑوس والے بلاک نمبر۱۳ میں منتقل کردیا گیا ۔ ۔ ۔ وہاں نماز پڑھانے کیلئے امام ۔ ۔ ۔ اور دین سکھانے کے لئے استاذ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ ۔ ۔ باقاعدہ قرعہ اندازی میں ۔ ۔ ۔ کمانڈر سجاد خان شہید ؒ کا نام نکلا ۔ ۔ ۔ وہ وہاں تشریف لے گئے ۔ ۔ ۔ اور ۱۵ جون کو تشدد کے نتیجے میں پہلے زخمی ۔ ۔ ۔ اور پھر شہید ہوگئے ۔ ۔ ۔ ان کی شہادت کے کچھ ہی دن بعد ۔ ۔ ۔ ہمیں ۔ ۔ ۔ بلاک نمبر۹ میں منتقل کردیا گیا ۔ ۔ ۔ کچھ ماہ بعد رمضان المبارک کا مہینہ تھا ۔ ۔ ۔ اور اس کی بائیسویں تاریخ ۔ ۔ ۔ جب مجھے دن کے دس گیارہ بجے ۔ ۔ ۔ یہاں سے نکال کر ۔ ۔ ۔ پہلے دہلی اور پھر قندہار منتقل کردیا گیا ۔ ۔ ۔ یوں ۔ ۔ ۔ اس بار ہمارا اس جیل میں قیام ۔ ۔ ۔ تین سال سے کچھ زائد رہا ۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
اللہ پاک کا شکر ہے ۔ ۔ ۔ گرفتاری کے بعد ۔ ۔ ۔ شروع کے ایک دو دن کو چھوڑ کر ۔ ۔ ۔ پورے چھ سال چودہ دن کا عرصہ ۔ ۔ ۔ جیلیں ہوں یا عقوبت خانے ۔ ۔ ۔ ساتھیوں کے ساتھ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں کی آنکھوں کے سامنے گزرا ۔ ۔ ۔ شروع کے ایک دو دن ۔ ۔ ۔ اس لئے ۔ ۔ ۔ تنہائی رہی کہ ۔ ۔ ۔ مارپیٹ اور تشدد کے ذریعہ ہماری شناخت کی جارہی تھی ۔ ۔ ۔ تہاڑ جیل میں سات ماہ ۔ ۔ ۔ جزوی تنہائی رہی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ساتھ والے بلاک میں جناب برادرم مشتاق احمد زرگر موجود تھے ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ دیوار پر چڑھ کر زیارت بھی کروا دیتے تھے ۔ ۔ ۔ اور روزانہ ۔ ۔ ۔ نالی کے توسط سے تفصیلی بات چیت بھی کرتے تھے ۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
’’کوٹ بھلوال جیل‘‘ کے پہلے تین ماہ کے قیام کے دوران کوئی کتاب وغیرہ ۔ ۔ ۔ نہیں لکھی گئی ۔ ۔ ۔ بس ۔ ۔ ۔ عمومی درس قرآن ہوتا تھا۔ ۔ ۔ جس میں سینکڑوں ’’اسیران ہند‘‘ شریک ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ بعض معمر بزرگوں کی خواہش پر عربی لغت کی کلاس بھی شروع ہوئی ۔ ۔ ۔ عصر سے مغرب تک کا وقت مریضوں کو دیکھنے اور انہیں دم کرنے میں گزر جاتا تھا ۔ ۔ ۔ ویسے مجھے جیل میں رہنے کا ’’طریقہ اور سلیقہ‘‘ بھی نہیں آتا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ضرورت کا سامان کیسے منگوایا جاتا ہے؟۔ ۔ ۔ اور خفیہ طریقے سے خط اور مضمون کیسے بھجوایا جاتا ہے؟ تہاڑ جیل سے واپسی ہوئی تو ۔ ۔ ۔ ہمارے اکثر ساتھی۔ ۔ ۔ ’’امور جیل‘‘ کے ماہر بن چکے تھے ۔ ۔ ۔ اس لئے ۔ ۔ ۔ دوسرے عرصہ کے قیام میں ۔ ۔ ۔ الحمدللہ ۔ ۔ ۔ زیادہ دینی کام ہوئے ۔ ۔ ۔ اسی عرصہ میں یہ کتابچہ ۔ ۔ ۔ آزادی مکمل یا ادھوری ۔ ۔ ۔ لکھا گیا ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ فضائل جہاد ، دروس جہاد ، یہود کی چالیس بیماریاں ۔ ۔ ۔ اور بہت سارے مضامین بھی اسی عرصہ میں ۔ ۔ ۔ لکھے اور بھجوائے گئے ۔ ۔ ۔ رجب کے مہینہ میں ۔ ۔ ۔ تصنیف و تالیف کے کام سے دو ماہ کی چھٹی لی تاکہ ۔ ۔ ۔ قرآن پاک یاد کیا جاسکے۔ ۔ ۔ ارادہ تھا کہ ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ ۲شوال سے یہود کی چالیس بیماریاں ۔ ۔ ۔ کا دوسرا حصہ شروع کردیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کی نصرت رمضان المبارک ہی میں آپہنچی۔ ۔ ۔ اور شوال کا چاند ۔ ۔ ۔ کوٹ بھلوال جیل کی جگہ ۔ ۔ ۔ بہاولپور اپنے گھر میں نصیب ہوا ۔ ۔ ۔ بے شک ان ربی لطیف لمایشاء انہ ھو الحکیم العلیم ۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
تہاڑ جیل کے قیام کا آخری حصہ ۔ ۔ ۔ تصنیف و تالیف میں گزرا تھا ۔ ۔ ۔ اور الحمدللہ قلم کچھ نہ کچھ چل پڑا تھا ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ کوٹ بھلوال جیل پہنچ کر ۔ ۔ ۔ یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا ۔ ۔ ۔ ہمارے بلاک میں نئے اور پرانے چالیس پاکستانی مجاہد ساتھی تھے ۔ ۔ ۔ اور سب ماشاء اللہ ۔ ۔ ۔ اس وقت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے تڑپ رہے تھے ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ سب قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا چاہتے تھے ۔ ۔ ۔ اکثر کو تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کی ضرورت تھی ۔ ۔ ۔ اور کئی کو عربی سیکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا ۔ ۔ ۔ چنانچہ میرا سارا وقت ۔ ۔ ۔ ان ۔ ۔ ۔ بھائیوں کو پڑھانے میں صرف ہوجاتا ۔ ۔ ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ ۔ اس سلسلے میں ۔ ۔ ۔ الحمدللہ ترقی ہوتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ کمانڈر سجاد شہیدؒ نے پورا ترجمہ قرآن مکمل کیا ۔ ۔ ۔ فی ساتھی ۷ منٹ کے حساب سے ناظرہ قرآن پاک کی کلاس چلتی تھی ۔ ۔ ۔ اس میں ۔ ۔ ۔ ہر ساتھی کو سات منٹ دیئے جاتے تھے۔ ۔ ۔ الحمدللہ ۔ ۔ ۔ کئی حضرات نے قرآن پاک مکمل کیا ۔ ۔ ۔ پھر اللہ پاک نے مجھے دو عزیز معاون ۔ ۔ ۔ ساتھی عطاء فرما دیئے ۔ ۔ ۔ انہوں نے میرا اکثر کام اپنے ذمے لے لیا ۔ ۔ ۔ مگر اپنی تعلیم مکمل کرانے کا کام میرے ذمے لگا دیا ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ ہمارے بلاک میں ترمذی شریف ۔ ۔ ۔ اور بخاری شریف تک کا سبق چلنے لگا ۔ ۔ ۔ ترمذی شریف تو الحمد للہ مکمل ہوئی ۔ ۔ ۔ جبکہ ۔ ۔ ۔ بخاری شریف کا دسواں پارہ چل رہا تھا ۔ ۔ ۔ اسی طرح ۔ ۔ ۔ اصول الشاشی اور ہدایۃ النحو بھی مکمل ہوئی ۔ ۔ ۔ میرے معاون حضرات ۔ ۔ ۔ مولانا ابو جندل صاحب ۔ ۔ ۔ اور مولانا حافظ محمد الیاس قاسمی صاحب نے بھی ۔ ۔ ۔ کئی کلاسیں شروع کردیں۔ ۔ ۔ اور حفظ کے نظام کو ایسا منظم کیا کہ ۔ ۔ ۔ ماشاء اللہ ۔ ۔ ۔ کچھ ہی عرصہ میں ۔ ۔ ۔ ہمارے بلاک میں پندرہ حافظ ہوگئے ۔ ۔ ۔ ظاہر بات ہے اس عرصہ میں ’’قلم‘‘ تقریباً بند رہا ۔ ۔ ۔ سات آٹھ مہینے کا عرصہ زنگ لگنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اسی سال اگست میں ۔ ۔ ۔ برصغیر کی آزادی کے پچاس سال پورے ہو رہے تھے ۔ ۔ ۔ ہم لوگ بی بی سی کی نشریات ۔ ۔ ۔ پابندی سے سنتے تھے ۔ ۔ ۔ اور ہمیں ۔ ۔ ۔ ان دنوں ایک اردو اخبار بھی ملتا تھا۔ ۔ ۔ پاکستان اور ہندوستان سے ۔ ۔ ۔ آزادی کی گولڈن جوبلی منانے کا شور ۔ ۔ ۔ سلاخوں کے پیچھے ہم تک بھی پہنچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ دل و دماغ پر ۔ ۔ ۔ خیالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔ ۔ ۔ اور جشن آزادی کے اندھیرے میں ۔ ۔ ۔ مدرسہ کا نور چمکنے لگا ۔ ۔ ۔ اس وقت چند دن نکال کر ۔ ۔ ۔ یہ مضمون لکھنا شروع کیا ۔ ۔ ۔ اور پوری کوشش کی کہ ۔ ۔ ۔ خوب اختصار سے لکھا جائے ۔ ۔ ۔ اور ’’صراحت‘‘ کی بجائے اشارات پر اکتفا کیا جائے ۔ ۔ ۔ بہرحال ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کی توفیق سے چند باتیں لکھی گئیں ۔ ۔ ۔ اور بہت ساری ذہن ہی میں رہ گئیں ۔ ۔ ۔ اختصار کا دامن مضبوط پکڑنے کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ مضمون کافی بے ربط رہا ۔ ۔ ۔ اور عبارتیں بھی گنجلک ہوگئیں ۔ ۔ ۔ اس پورے مضمون میں میرے مخاطب ۔ ۔ ۔ دینی مدارس کے عزیز طلبہ کرام تھے ۔ ۔ ۔ اس لئے کتاب کا نام ۔ ۔ ۔ تحفہ طلبہ تجویز کیا تھا ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ پھر اس کا نام ۔ ۔ ۔ آزادی مکمل یا ادھوری؟ ۔ ۔ ۔ رکھ دیا گیا ۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے یہ کتاب ۔ ۔ ۔ پاکستان بھجوادی گئی۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
جیل میں موجود ساتھیوں نے اس کتابچے کا مسودہ پڑھ کر ۔ ۔ ۔ بہت خوشی کا اظہارکیا ۔ ۔ ۔ انگریزی تعلیم رکھنے والے ایک دوست نے کہا ۔ ۔ ۔ میں چاہوں تو کئی سو صفحات پر ۔ ۔ ۔ اس کتاب کی مدلل شرح لکھ سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ پاکستان سے خبر آئی کہ ۔ ۔ ۔ فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے ۔ ۔ ۔ اس کتاب کو پسند فرمایا ۔ ۔ ۔ اور اس کے ایک مضمون پر ۔ ۔ ۔ آٹھ بار شاباش دی ہے ۔ ۔ ۔
کچھ عرصہ بعد ۔ ۔ ۔ یہ کتاب ’’چَھپ‘‘ کر اور چُھپ کر ۔ ۔ ۔ ہمارے پاس بھی پہنچ گئی ۔ ۔ ۔ ساتھیوں نے ٹائٹل اتار کر ۔ ۔ ۔ بھجوائی تھی ۔ ۔ ۔ تاکہ جیل حکام کو پتہ نہ چلے ۔ ۔ ۔ اور جہاں جہاں میرا نام تھا وہاں سفید روشنائی پھیر دی تھی ۔ ۔ ۔ جب ۔ ۔ ۔ میرا ’’نام‘‘ مٹ گیا تو کتاب پہنچ گئی ۔ ۔ ۔ اور جیل حکام نے تھوڑی سی بحث و تمحیص کے بعد ۔ ۔ ۔ اسے ۔ ۔ ۔ میرے حوالے کردیا ۔ ۔ ۔ نام مٹانے کا یہ سلسلہ کافی طویل ہے ۔ ۔ ۔ اور بہت دلچسپ ۔ ۔ ۔ شاید آپ کو معلوم ہوکہ ۔ ۔ ۔ کچھ دن پہلے ۔ ۔ ۔ ہمارے فوجی جوان ۔ ۔ ۔ اور خفیہ اہلکار آزاد کشمیر ۔ ۔ ۔ اور صوبہ سرحد کے امدادی کیمپوں سے ۔ ۔ ۔ میرا نام مٹاتے پھر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ۔ ۔ ۔ بہت اوپر سے آرڈر آیا ہے ۔ ۔ ۔ ایک ’’خیرخواہ‘‘ نے بتایا ۔ ۔ ۔ امر یکہ ، انڈیا وغیرہ کے بہت سارے جاسوس ۔ ۔ ۔ زلزلہ زدگان کی امداد کے بہانے گھوم پھر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ اس نام کو دیکھ کر ۔ ۔ ۔ وہاں شکایت لگادیں گے ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ بہت مسئلہ ہوجائے گا ۔ ۔ ۔ بہت مسئلہ ۔ ۔ ۔ اس لئے مٹا دو ہٹادو ، چھپا دو ، میں نے یہ خبر سنی تو ۔ ۔ ۔ خوشی سے مسکرانے لگا ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ و بحمدہ ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ العظیم ۔ ۔ ۔ اچھا کیا ۔ ۔ ۔ میرا نام مٹا دیا ۔ ۔ ۔

﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
یہ کتابچہ نو سال پہلے لکھا گیا تھا ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ ماحول یہ تھا کہ ۔ ۔ ۔ افغانستان میں ’’امارت اسلامی‘‘ قائم تھی ۔ ۔ ۔ حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد زیدمجدہ ۔ ۔ ۔ افغانستان کے اکثر حصے کے ’’شرعی حکمران‘‘ تھے ۔ ۔ ۔ پاکستان میں غیر فوجی حکومت تھی ۔ ۔ ۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاد زوروں پر تھا ۔ ۔ ۔ پاکستان کا میڈیا ۔ ۔ ۔ اور حکمران کشمیر کی تحریک کو ’’جہاد‘‘ قرار دیتے تھے ۔ ۔ ۔ عراق پر صدام حسین کی حکومت تھی ۔ ۔ ۔ آج کے بہت سارے مشہور نام ۔ ۔ ۔ اس وقت کسی نے سنے تک نہیں تھے ۔ ۔ ۔ ہاں ان لوگوں کو ۔ ۔ ۔ ان کی گلیوں کے لوگ ضرور جانتے ہونگے۔ ۔ ۔ ہم چند پاکستانی انڈیا کی قید میں بیٹھے تھے ۔ ۔ ۔ اور ہماری رہائی کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے ۔ ۔ ۔ ان حالات میں جو کچھ سمجھا گیا وہ سپرد قلم کردیا گیا ۔ ۔ ۔ اس وقت سے لیکر اب تک اس کتاب کے ’’دس ایڈیشن‘‘ ہمارے ساتھیوں نے شائع کئے ہیں ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسرے بعض افراد نے ۔ ۔ ۔ اپنے طور پر بھی اس کتاب کو شائع اور تقسیم کیا ہے ۔ ۔ ۔ انگریزی ، پشتو سمیت بعض دوسری زبانوں میں بھی اس کے ترجمے شائع ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ اس پورے عرصہ میں مجھے اس کتاب کو ازسرنو دیکھنے کا وقت نہیں ملا ۔ ۔ ۔ ابھی چند دن پہلے ۔ ۔ ۔ اس کی تصحیح اور ازسرنو ترتیب کا داعیہ دل میں پیدا ہوا ۔ ۔ ۔ اور اللہ پاک نے محض اپنے فضل سے اس کی توفیق عطاء فرما دی۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
آپ حضرات جانتے ہیں کہ اب حالات کافی بدل چکے ہیں۔ ۔ ۔ آج افغانستان میں ۔ ۔ ۔ امارت اسلامی موجود نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اور امیر المومنین ’’روپوشی‘‘ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ۔ ۔ حضرت اقدس نانوتوی ؒ کے ایک فرمان کو بلا سمجھے حجت قرار دے کر ۔ ۔ ۔ تین دن سے زیادہ روپوشی کو خلاف سنت قراردینے والوں کیلئے ۔ ۔ ۔ میری دعا ہے کہ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک انہیں بھاری اور اونچی ذمہ داریوں سے دور رکھے ۔ ۔ ۔ تاکہ ۔ ۔ ۔ ساری دنیا کے کافر ان کے دشمن نہ بن جائیں ۔ ۔ ۔ ورنہ ۔ ۔ ۔ تین دن کی روپوشی سے کام نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ وہ جن کو کوئی پکڑتا ہی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ان کیلئے تین دن کی روپوشی کافی ہے ۔ ۔ ۔ وہ جن کو پکڑنے کی زحمت تھانے کا ایس ایچ او بھی نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ بلکہ ۔ ۔ ۔ بوقت ضرورت حوالدار یا عام سپاہی کو بھیج دیتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ تین دن کی روپوشی کو بے شک بہت سمجھیں ۔ ۔ ۔ وہ جن کے اشاروں کے تعاقب میں امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا ۔ ۔ ۔ ہلکان نہیں ہوتے ۔ ۔ ۔ ان کیلئے واقعی ۔ ۔ ۔ تین دن کی روپوشی بہت ہے ۔ ۔ ۔ مگر وہ جن پر اسلامی تحریکوں کا دارومدار ہے ۔ ۔ ۔ اور جن کی گردن پر امت مسلمہ کا بوجھ ہے ۔ ۔ ۔ انہیں ۔ ۔ ۔ بعض اوقات مرنے کے بعد بھی روپوش رہنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ غار ثور سے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم تین دن بعد ۔ ۔ ۔ اس لئے باہر ۔ ۔ ۔ تشریف لے آئے تھے کہ مشرکین مکہ ۔ ۔ ۔ مایوس ہوکر ۔ ۔ ۔ وہاں سے ہٹ چکے تھے ۔ ۔ ۔ اللہ کرے ۔ ۔ ۔ یہ زمانہ بھی ایسی کروٹ بدلے کہ ۔ ۔ ۔ امیر المومنین ۔ ۔ ۔ اور دیگر اسیر مجاہدین کھلم کھلا ۔ ۔ ۔ کام کرسکیں ۔ ۔ ۔ روپوشی ہجرت کی مشکل ترین صورت ہے ۔ ۔ ۔ اللہ پاک آسانی فرمائے۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
افغانستان میں تو ۔ ۔ ۔ امریکہ کی حکومت ہے ۔ ۔ ۔ مگر پھر بھی ۔ ۔ ۔ وہاں مجاہدین نسبتاً آزاد ہیں ۔ ۔ ۔ اور پکتیا سے لیکر ۔ ۔ ۔ زابل وقلات تک خوب مزے سے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر پاکستان میں ۔ ۔ ۔ امریکہ کی اتحادی ۔ ۔ ۔ فوجی حکومت قائم ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ حکومت امریکہ سے زیادہ مجاہدین کی دشمن اور مخالف ہے ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کتاب میں ۔ ۔ ۔ انگریز کے مسلط کردہ جن تین سانپوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ موجودہ حکومت ۔ ۔ ۔ ان تینوں کا مرکب ہے ۔ ۔ ۔ انگریزی نظام تعلیم ۔ ۔ ۔ لسانی عصبیت ، انگریز کی غلام جاگیر دارانہ ذہنیت ۔ ۔ ۔ اور قادیانیت نوازی کی وجہ سے اعلیٰ درجے کی فرقہ پرستی ۔ ۔ ۔ حکومت میں شامل کئی افراد اسلام سے بری طرح بے زار ۔ ۔ ۔ اور کافروں کے باقاعدہ عملدار ہیں ۔ ۔ ۔ یہ لوگ موقع کی تلاش میں تھے ۔ ۔ ۔ اللہ پاک نے ان کو ڈھیل دی ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ گیارہ ستمبر کے بعد کے واقعات ۔ ۔ ۔ ان کے معاون بن گئے ۔ ۔ ۔ اب وہ کھلم کھلا ۔ ۔ ۔ ننگے ناچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ڈاڑھی اور برقع کو برا کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ فحاشی اور عریانی ۔ ۔ ۔ کی سرپرستی کرتے ہیں جہاد کے خلاف کافروں کی بولی بولتے ہیں۔ ۔ ۔ مجاہدین کو مارتے ، پکڑتے اور کافروں کے سپرد کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ غیر ملکیوں کو عزت اور اپنے ہم وطنوں کو ذلت دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ لوگ ملک کے ’’نظام تعلیم‘‘ کو مزید ملحدانہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے مدارس کو برباد کرنے کی مہم بھی شروع کردی ہے ۔ ۔ ۔ قادیانیت خود ۔ ۔ ۔ اسلام کے خلاف ایک نیا فرقہ ہے ۔ ۔ ۔ جو انگریز کے زمانے میں وجود میں آیا ۔ ۔ ۔ ان کی کتابیں مذہبی منافرت ۔ ۔ ۔ اور گالیوں سے بھری پڑی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر اس فرقے کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ۔ ۔ ۔ دوسروں پر مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا الزام ۔ ۔ ۔ بہت تسلسل سے لگاتا ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ قادیانیوں کی نشانی ہی یہی ہے کہ وہ ۔ ۔ ۔ ہر مجلس ہر فورم اور ہر جگہ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا رونا روتے ہیں ۔ ۔ ۔ دیکھیں کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ۔ ۔ ۔ خود ایک ناپاک فرقہ بنانے والے یہ ظالم لوگ ۔ ۔ ۔ اصل مسلمانوں کو ۔ ۔ ۔ فرقہ پرست کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ دراصل یہ سبق ان کو ۔ ۔ ۔ ان کے بانی ، سرپرست اور استاد ’’انگریز‘‘ نے سکھایا ہے ۔ ۔ ۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کا ۔ ۔ ۔ ہر روز ۔ ۔ ۔ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت پرشور مچانا ۔ ۔ ۔ اہل پاکستان کو شبہے میں ڈال رہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ کہیں (نعوذ باللہ) یہ ملک قادیانیوں کے ہاتھوں میں تو نہیں آگیا۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
ادھر مشرق وسطیٰ کے حالات بھی تیزی سے بدلے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اب عراق پر بھی ۔ ۔ ۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کا قبضہ ہے ۔ ۔ ۔ مسئلہ فلسطین پہلے کی طرح ہچکولے کھا رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور یاسر عرفات کے بعد ۔ ۔ ۔ محمود عباس کی قیادت ۔ ۔ ۔ اہل فلسطین کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔ ۔ ۔ سعودی عرب میں شاہ فہد کے انتقال کے بعد ۔ ۔ ۔ شاہ عبداللہ کی حکومت ۔ ۔ ۔ کسی بھی وقت اختلاف کا شکار ہوسکتی ہے ۔ ۔ ۔ جبکہ ۔ ۔ ۔ شام اور ایران کے حکمران ۔ ۔ ۔ دورنگی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ ۔ ۔ الغرض ۔ ۔ ۔ نو سال پہلے جب یہ مضمون لکھا گیا تھا تو حالات اور تھے ۔ ۔ ۔ اور اب ۔ ۔ ۔ جبکہ ۔ ۔ ۔ کتاب پر نظرثانی کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ دنیا کے ظاہری حالات ۔ ۔ ۔ کافی حد تک بدل چکے ہیں ۔ ۔ ۔ پاکستان کے دینی مدارس بھی حالات کی اس تبدیلی میں ۔ ۔ ۔ کافروں کا بنیادی ہدف ہیں ۔ ۔ ۔ اور اب ملک کا دینی طبقہ بھی بری طرح سے تقسیم ہوچکا ہے ۔ ۔ ۔ حالانکہ ۔ ۔ ۔ ظاہری طور پر ۔ ۔ ۔ بہت سارے علماء ۔ ۔ ۔ صدر پرویز کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں ۔ ۔ ۔ صوبہ سرحد میں ۔ ۔ ۔ دینی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت ہے ۔ ۔ ۔ اور بلوچستان میں بھی ۔ ۔ ۔ علماء حکومت کا حصہ ہیں ۔ ۔ ۔ مگر اس سب کے باوجود ۔ ۔ ۔ نہ طالبان کو کوئی فائدہ پہنچااور نہ دینی مدارس کو ۔ ۔ ۔ اور دیندار طبقے نے لفظ ’’مصلحت‘‘ کو اپنے ہر درد کی دوا سمجھ لیا ۔ ۔ ۔ وہ حضرات جن کے نزدیک جنرل ضیاء الحق کا نام لینا ’’کفر‘‘ کے مترادف تھا۔ ۔ ۔ جنرل پرویز سے کئی کئی گھنٹے ملتے ۔ ۔ ۔ اور گرمجوشی سے بغل گیر ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہماری قوم نے ان بے چاروں سے تو حساب لے لیا جنہوں نے ۔ ۔ ۔ طالبان کے سقوط کے وقت احتجاجی جلوس نہیں نکالے تھے ۔ ۔ ۔ حالانکہ ان کے جسموں سے خون ٹپک رہا تھا ۔ ۔ ۔ اور وہ جلوسوں کے نہیں ’’جہاد‘‘ کے لوگ تھے اور جہاد ہی میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ مگر قوم نے ان سے خوب پوچھ تاچھ کی ۔ ۔ ۔ وہ اللہ کے بندے غیروں کی گولیاں ۔ ۔ ۔ اور اپنوں کی گالیاں کھاتے رہے ۔ ۔ ۔ اور بالآخر قوم کو معلوم ہو گیا کہ وہ لوگ سچے تھے۔۔ ۔ ۔ مگر قوم نے ان لوگوں سے حساب نہیں لیا جو احتجاجی جلوس نکال کر ۔ ۔ ۔ اوپر کی کرسیوں تک جاپہنچے ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ ۔ ۔ ۔ اس ظالم نظام کا حصہ بن گئے ۔ ۔ ۔ جس نظام کی چکی کے پاٹوں سے ۔ ۔ ۔ علماء ، مجاہدین ۔ ۔ ۔ اور مدارس کا خون ٹپک رہا ہے ۔ ۔ ۔ پہلے دینی طبقے میں اتنا اتحاد تو تھا کہ ۔ ۔ ۔ موت ، غمی ۔ ۔ ۔ اور مصیبت کے وقت اکٹھے ہوجاتے تھے ۔ ۔ ۔ مگر اب تو ۔ ۔ ۔ وہ بھی باقی نہیں رہا۔ ۔ ۔ کچھ لوگ مارے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو دوسرے فوراً کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ انہوں نے ہماری نہیں مانی تھی ۔ ۔ ۔ اب مرتے ہیں تو مرتے رہیں ۔ ۔ ۔ سڑتے ہیں تو سڑتے رہیں ۔ ۔ ۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاکر ۔ ۔ ۔ حکومت ترتیب سے مار رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور ایک ایک کو الگ کرکے اس کی کھال اتار رہی ہے ۔ ۔ ۔ دینی مدارس میں سے بعض پر ۔ ۔ ۔ خوف کی کیفیت ۔ ۔ ۔ اور بچاؤ کا جنون سوار ہے ۔ ۔ ۔ اب وہاں جہاد کا نام نہیں لیا جاتا ۔ ۔ ۔ بلکہ ۔ ۔ ۔ صفائی دی جاتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ہمارا جہاد سے کیا تعلق ۔ ۔ ۔ دنیا اتنی پاگل نہیں کہ چار سال پہلے کے حالات کو بھول جائے گی ۔ ۔ ۔ اور قرآن پاک عاجز کتاب نہیں ہے کہ ۔ ۔ ۔ اس کی ۔ ۔ ۔ آیات جہاد کو ۔ ۔ ۔ چھپایا جاسکے گا ۔ ۔ ۔ الغرض ۔ ۔ ۔ دینی طبقہ ۔ ۔ ۔ اتفاق و یکجہتی کا محتاج ہے ۔ ۔ ۔ اللہ پاک خاص کرم فرمائے۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
میں نے جب ۔ ۔ ۔ اس کتاب پر نظرثانی کی تو سوچ میں ۔ ۔ ۔ پڑ گیا کہ ۔ ۔ ۔ بہار کے موسم کا یہ نغمہ ۔ ۔ ۔ اس خزاں میں بھی مفید ہے یا نہیں؟۔ ۔ ۔ غور ، فکر اور استخارے کے بعد ۔ ۔ ۔ دل کھل گیا ۔ ۔ ۔ اور بات سمجھ میں آئی کہ ۔ ۔ ۔ اصل وقت تو اب ہے ۔ ۔ ۔ یہی وقت آگے بڑھنے ۔ ۔ ۔ پتھرسہنے ۔ ۔ ۔ اور کام کرنے کا ہے ۔ ۔ ۔ اس وقت ’’مایوسی‘‘ موت سے بدتر۔ ۔ ۔ اور ’’اقدام‘‘ افضل ترین کام ہے ۔ ۔ ۔ اب لوگ انگریز کے سانپوں کو خود ۔ ۔ ۔ ننگاناچتے ۔ ۔ ۔ اور مسلمانوں کی طرف زہر پھینکتے دیکھ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ مدارس ، خانقاہوں اور دعوت و تبلیغ کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ ۔ ۔ اور جہاد ۔ ۔ ۔ باوجود اس کے کہ مشکل میں نظر آرہا ہے ۔ ۔ ۔ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے ۔ ۔ ۔ گویا کہ ۔ ۔ ۔ امارت اسلامی افغانستان مشک کی تھیلی تھی ۔ ۔ ۔ یہ تھیلی جب تک بند ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ بہت قیمتی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب ۔ ۔ ۔ پھٹ جاتی ہے تو بہت مفید ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کی خوشبو ہرطرف پھیل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ امارت اسلامی جب سلامت تھی تو بہت قیمتی تھی ۔ ۔ ۔ اب ۔ ۔ ۔ ٹوٹ گئی ہے تو بہت مفید بن گئی ہے ۔ ۔ ۔ اور دریائے کابل سے اٹھنے والی ہواؤں نے دجلہ اور فرات کی لہروں کو بھی ۔ ۔ ۔ کفر کیلئے خوفناک بنادیا ہے ۔ ۔ ۔ پہلے جہاد بندوق سے ہورہا تھا ۔ ۔ ۔ اب اپنے جسم کے ٹکڑوں سے ہورہا ہے ۔ ۔ ۔ اس لئے اب اصل موسم ہے ۔ ۔ ۔ اور یہی وقت دینی مدارس کے طلبہ کو اپنی ذمہ داریاں ۔ ۔ ۔ سمجھنے اور سنبھالنے کا ہے۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
اگر حالات جوں کے توں رہتے تو ۔ ۔ ۔ بڑی تبدیلی نہیں آسکتی تھی ۔ ۔ ۔ ہر بڑی اچھائی سے پہلے ۔ ۔ ۔ چھوٹی اچھائی کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ اگر آپ بیمار ہیں اور آپ کو ڈاکٹر نے بکری کے گردے کھانے کی لازمی تاکید کی ہے تو ۔ ۔ ۔ آپ کو ۔ ۔ ۔ اپنی جان بچانے کیلئے ۔ ۔ ۔ اور صحت کی ’’بڑی اچھائی‘‘ پانے کیلئے ۔ ۔ ۔ اپنی بکری کو ذبح کرنا پڑے گا ۔ ۔ ۔ اسے کاٹنا پڑے گا ۔ ۔ ۔ حالانکہ وہ آپ کو اچھی لگتی تھی ۔ ۔ ۔ اسی طرح ۔ ۔ ۔ اب دنیا میں اسلام کا دور ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ آنے ہی والا ہے ۔ ۔ ۔ اس مبارک دور کیلئے ۔ ۔ ۔ یہ ساری تیاری ہورہی ہے۔ ۔ ۔ کافر کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ ۔ ۔ منافقوں کا اچھی طرح پتہ چل گیا ہے ۔ ۔ ۔ کون دین کیلئے جا ن دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور کون نہیں دیتا ۔ ۔ ۔ یہ چھانٹی بھی اچھی طرح ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ کون جہاد کرتا ہے اور کون نہیں؟ ۔ ۔ ۔ یہ بھی دیکھ لیا گیا ہے ۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
چھانٹی ، امتحان ۔ ۔ ۔ اور آندھی کے اس سخت وقت میں ۔ ۔ ۔ ہم سب دین ، جہاد ، قربانی ۔ ۔ ۔ اور وفاداری پر قائم رہیں ۔ ۔ ۔ اس کیلئے ہمیں ۔ ۔ ۔ بہت ترغیب اور ہمت افزائی کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ اس کتاب کا مذاکرہ ہمیں اس کی ترغیب دے گا ۔ ۔ ۔ دینی مدارس کے طلبہ کیلئے اس وقت بڑا امتحان ہے۔ ۔ ۔ جہاد کا نام چھوڑ کر اگر مدارس کی عمارتیں بچائی گئیں تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا ۔ ۔ ۔ مدارس کا کام دین کی حفاظت ہے ۔ ۔ ۔ نہ کہ ۔ ۔ ۔ محض اپنی حفاظت ۔ ۔ ۔ مدارس بے فکر ہوکر دین کی حفاظت کریں ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے گا ۔ ۔ ۔ یہ مشکل اور برے دن عارضی ہیں ۔ ۔ ۔ اہل مدارس ۔ ۔ ۔ ہوا کے رخ پر نظریات نہیں بدلتے ۔ ۔ ۔ بلکہ ۔ ۔ ۔ وہ تو ہواؤں کا رخ موڑنے کا ماضی رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ اللہ پاک امتحان کی اس گھڑی میں ۔ ۔ ۔ ہم سب کو ۔ ۔ ۔ بزدلی ، حب دنیا ۔ ۔ ۔ اور خوف سے بچا کر ۔ ۔ ۔ اپنے دین پر قائم رکھے ۔ ۔ ۔ پورے دین پر ۔ ۔ ۔ مکمل دین پر ۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
طلبہ کرام سے گذارش ہے کہ ۔ ۔ ۔ ہم ۔ ۔ ۔ صحابہ کرام اور اسلاف امت کے بعد ۔ ۔ ۔ اپنے جن ’’حضرات اکابر‘‘ پر فخر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ان کو کن حالات کا سامنا تھا؟۔ ۔ ۔ اونچے کردار حلوے کے دور میں نہیں ظلم و جبر کے زمانے میں وجود پاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہمارے لئے صرف اتنا جان لینا کافی نہیں ہے کہ ہمارے اکابر بہادر تھے ۔ ۔ ۔ بات تب بنے گی جب ہم بھی جرأت اور بہادری سے کام لیں گے ۔ ۔ ۔ اپنے اکابر کے جہادی واقعات دہرا لینا کافی نہیں۔ ۔ ۔ بات تب بنے گی جب ہم بھی ۔ ۔ ۔ بالاکوٹ ، شاملی ۔ ۔ ۔ اور تھانہ بھون کی تاریخ دہرانے کی ہمت رکھتے ہوں ۔ ۔ ۔ اپنے اکابر کے شوق شہادت کی داستان پڑھ لینا کافی نہیں ۔ ۔ ۔ ہمیں اپنے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ نعمت مانگنی ہوگی ۔ ۔ ۔ مالٹا مالٹا کہہ کر ۔ ۔ ۔ صرف مالٹے کا جوس پینے سے کام نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ اسیر مالٹا کی عزیمت کو اپنے عمل سے زندہ کرنا ۔ ۔ ۔ خود ہماری ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ صرف یہی بتاکر مجمع گرمانے سے کام نہیں چلے گا کہ ۔ ۔ ۔ علماء کرام کو خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے ۔ ۔ ۔ تندوروں میں جلایا گیا ۔ ۔ ۔ ہمیں خودکو بھی ایسے حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ہوگا ۔ ۔ ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ سے لیکر حضرت مدنیؒ تک کے انگریز کے خلاف فتاویٰ کا تذکرہ زبان پر آسان ہے ۔ ۔ ۔ مگر ان فتاویٰ کے پیچھے کتنا بڑا دل گردہ ۔ ۔ ۔ اور کتنے اذیت ناک خطرات ہیں ۔ ۔ ۔ ہمیں ان پر غور کرنا چاہئے ۔ ۔ ۔ میرے عزیز بھائیو! ۔ ۔ ۔ شیخ الہند کا نام آسان ۔ ۔ ۔ اور میٹھا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ان کے کردار کو اپنانا بہت مشکل ۔ ۔ ۔ اور بے حد کڑوا ہے ۔ ۔ ۔ اب حضرت شیخ الہندؒ موجود نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ اب حضرت مدنی ؒ میدان دنیا میں نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ان کے کام ، نظریات اور کردار کی ضرورت ابھی تک باقی ہے ۔ ۔ ۔ ان حضرات نے جن حالات میں عزیمت کی داستان مرتب کی ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ ہمارے موجودہ حالات سے زیادہ سخت تھے ۔ ۔ ۔ وقت کے قاضی نے ان کو پکا ، سچا اور کامیاب مسلمان قرار دیا ۔ ۔ ۔ اور اب وقت کا مورخ ہماری طرف دیکھ رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور ہم میں سے بعض نے (نعوذ باللہ) ابھی سے الٹے قدموں بھاگنا شروع کردیا ہے۔ ۔ ۔ میں مانتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ ان حالات میں ’’سچے مسلمان‘‘ کا کردار اپنانا کتنا مشکل ہے ۔ ۔ ۔ اس لئے ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت اور مدد مانگتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر میرے عزیز بھائیو! اس کردار کو چھوڑنے کی گنجائش بھی تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اس لئے ہمیں ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ سے استقامت مانگنی ہوگی ۔ ۔ ۔ خوب استقامت۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
دنیا بھر کے دشمنان اسلام کی نظریں ۔ ۔ ۔ اس وقت ۔ ۔ ۔ دینی مدارس کے طلبہ کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔ ۔ ۔ ان کا خیال ہے کہ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اپنی موجودہ حالت میں ۔ ۔ ۔ ہمارے لئے خطرناک ہیں ۔ ۔ ۔ ان کا یہ ذہن کیوں بنا؟۔ ۔ ۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں بیٹھ کر غوروفکر کرنے کا نہ کوئی رواج ہے ۔ ۔ ۔ اور نہ نظام ۔ ۔ ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ دنیا بھر میں برسرپیکار مجاہدین کی اکثریت کا تعلق ’’دینی مدارس‘‘ سے نہیں ہے۔ ۔ ۔ آپ فلسطین کے جہاد کو لے لیجئے ۔ ۔ ۔ سوفیصد مجاہدین سکول و کالج کے تعلیم یافتہ ہیں ۔ ۔ ۔ الفتح ہو یا حماس سب انگریزی بولتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہاں الفتح والے اکثر دین سے دور اور حماس والے اکثر دیندار ہیں ۔ ۔ ۔ اگر آپ کو اردن اور لبنان کے سکولوں اور کالجوں کا فحش ماحول ۔ ۔ ۔ معلوم ہو تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ۔ ۔ ۔ اتنی کھلی بے حیائی ۔ ۔ ۔ اور اتنے دلکش حسن کے ماحول سے ۔ ۔ ۔ فدائی مجاہدین کس طرح پیدا ہو رہے ہیں ۔ ۔ ۔ وہاں کوئی مدرسہ نہیں ۔ ۔ ۔ دیندار لوگ ۔ ۔ ۔ باہمی نشستوں ۔ ۔ ۔ اور مساجد کے ذریعہ ۔ ۔ ۔ دین کی بات عام کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ جبکہ ۔ ۔ ۔ تعلیم سب سکول و کالج ہی میں حاصل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ پھر آپ عراق پر نظر ڈالئے ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ، انجینئر ، سابق فوجی ۔ ۔ ۔ اور کالجوں کے طلبہ زوردار فدائی کارروائیاں کررہے ہیں ۔ ۔ ۔ نہ عراق میں کوئی خالص دینی تعلیم کا مدرسہ ہے اور نہ اس کے آس پاس ۔ ۔ ۔ اچھا آپ کشمیر کے جہاد کو لے لیجئے ۔ ۔ ۔ وہاں مدرسہ سے تعلق رکھنے والے مجاہدین ایک فیصد بھی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ میدان میں لڑنے والے ننانوے فیصد سے زائد مجاہدین کا تعلق ۔ ۔ ۔ سکول کالج سے ہے ۔ ۔ ۔ آپ باریکی اور انصاف کے ساتھ ۔ ۔ ۔ کشمیر کی تمام چھوٹی ، بڑی جماعتوں کا جائزہ لیجئے ۔ ۔ ۔ آپ کو یہی صورتحال نظر آئے گی ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ زمین کے اوپر موجود ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کچھ ’’خفیہ بات‘‘ نہیں ۔ ۔ ۔ یہ تو ہوا تین بڑی جہادی تحریکوں کا حال ۔ ۔ ۔ اب آیئے افغانستان کی طرف ۔ ۔ ۔ یہاں بے شک دینی مدارس کے طلبہ کی خاطر خواہ تعداد نے ۔ ۔ ۔ جہاد میں حصہ لیا ۔ ۔ ۔ مگر افغان مجاہدین میں ان کی تعداد کا تناسب بمشکل بیس سے پچیس فیصد بنتا ہے ۔ ۔ ۔ باقی اسّی فیصد مجاہدین کا تعلق ’’عوام‘‘ سے ہے ۔ ۔ ۔ اور اس وقت افغانستان میں بڑی فدائی کارروائیاں کرنے والے ۔ ۔ ۔ سوفیصد مجاہدین کا تعلق ۔ ۔ ۔ عرب ممالک ، ازبکستان ۔ ۔ ۔ اور دیگر پڑوسی ممالک سے ہے ۔ ۔ ۔ البتہ طلبہ بھی جہاد میں موجود ہیں ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ حقیقت ہے ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ ساری نظریں دینی مدارس کے طلبہ پر ہی کیوں ہیں ۔ ۔ ۔ بات بہت سادہ سی ہے ۔ ۔ ۔ جو مسلمان بھی ’’جہاد‘‘ کررہا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اسے اللہ پاک کا حکم سمجھ کر ۔ ۔ ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سمجھ کر ۔ ۔ ۔ اور ایک ’’اسلامی فریضہ‘‘ سمجھ کر ادا کررہا ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ ساری باتیں ’’قرآن پاک‘‘ میں موجود ہیں ۔ ۔ ۔ اور قرآن پاک اور اس کے نظریات کی حفاظت کا ظاہری ذریعہ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک نے ’’دینی مدارس‘‘ علماء اور طلبہ کو بنایا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ اب اسلام دشمن قوتوں کی خواہش ہے کہ ۔ ۔ ۔ قرآنی نظریات کے محافظ ۔ ۔ ۔ علماء اور طلبہ ۔ ۔ ۔ دنیا پرست بن جائیں ، قوم پرست بن جائیں ، جمہوریت کے محافظ بن جائیں ۔ ۔ ۔ اور جدید دنیا کی رنگ رلیوں کے شوقین بن جائیں ۔ ۔ ۔ تب ۔ ۔ ۔ یہ لوگ خود قرآنی نظریات کو بدلیں گے ۔ ۔ ۔ اور اپنی جان اور مراعات بچانے کیلئے ۔ ۔ ۔ چلا چلا کر کہیں گے ۔ ۔ ۔ کافروں سے لڑنا جہاد نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ہمارا جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ۔ ۔ جہاد لڑائی کا نام نہیں ہے ۔ ۔ ۔ یوں جہاد کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا ۔ ۔ ۔ اور علماء اور طلبہ بھی ۔ ۔ ۔ حب دنیا اور دینداری کا معجون مرکب بن کر ۔ ۔ ۔ اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گے ۔ ۔ ۔ یہ سازش بہت گہری ہے ۔ ۔ ۔ مگر کوڑھ مغز ، تھنک ٹینکس کی خدمت میں عرض ہے کہ ۔ ۔ ۔ یہ سازش کامیاب نہیں ہوگی ۔ ۔ ۔ قرآن پاک اور اس کے نظریات کا محافظ ۔ ۔ ۔ خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ ۔ ۔ اس کا فضل اور احسان ہے کہ وہ کسی کو ۔ ۔ ۔ اس کی حفاظت کا ذریعہ بنادے ۔ ۔ ۔ اب اگر کوئی اس نعمت کی ناشکری کرے گا ۔ ۔ ۔ اور دین کو دنیا کے بدلے بیچے گا ۔ ۔ ۔ تو وہ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کا کچھ نقصان نہیں کرے گا ۔ ۔ ۔ سارا نقصان ۔ ۔ ۔ خود اسی کے سرپڑے گا ۔ ۔ ۔ اور اللہ پاک اس کی جگہ ۔ ۔ ۔ اس کے منصب اور کام پر ۔ ۔ ۔ اپنے پسندیدہ افراد لے آئے گا ۔ ۔ ۔ قرآن پاک کی ’’سورۂ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)‘‘ کی آخری آیت پڑھ لیجئے ۔ ۔ ۔ یہ پوری بات اچھی طرح سمجھ آجائے گی ۔ ۔ ۔

و ان تتولوایستبدل قوما غیر کم ثم لایکونوا امثالکم۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
ہمارے اسلاف اور اکابر بھی ۔ ۔ ۔ عام انسانوں کی طرح ۔ ۔ ۔ پہلے چھوٹے بچے تھے ۔ ۔ ۔ قرآن و سنت کے طالب علم تھے ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ اللہ پاک نے انہیں اپنے کام کیلئے ۔ ۔ ۔ اپنے دین کیلئے ۔ ۔ ۔ اور جہاد کیلئے منتخب فرمالیا۔ ۔ ۔ وہ اپنی زندگی کے دن گزار کر چلے گئے ۔ ۔ ۔ اور کچی قبروں کی اوٹ میں چھپ گئے ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ وہ اپنے لئے ۔ ۔ ۔ صدقات جاریہ کے ڈھیر جمع کر گئے ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ۔ ۔ ۔ اور اس کے دین کے سچے وفادارتھے ۔ ۔ ۔ چنانچہ حالت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ان کا نام تک ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔ ۔ ۔ اور اس کے دین کے ساتھ جڑ گیا ۔ ۔ ۔ اب ان کا نام آتا ہے تو دل و دماغ فوراً ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کے دین کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ بے شک یہ بہت اونچا مقام ۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے ۔ ۔ ۔ مدرسہ کی چٹائی پر آج علم حاصل کرنے والا ’’طالب علم‘‘ بھی کل ان اکابر کے قافلے کا ہمسفر بن سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ اس کیلئے اسے اپنے اندر ’’وفاداری‘‘ پیدا کرنا ہوگی ۔ ۔ ۔ اور سچی وفاداری کے لئے ۔ ۔ ۔ اخلاص ، ہمت ، بہادری ۔ ۔ ۔ اور قربانی کا جذبہ شرط ہے ۔ ۔ ۔ اے طالب علمو!۔ ۔ ۔ ہمیں قوم ، علاقہ اور زبان کی پرستش چھوڑنی ہوگی ۔ ۔ ۔ دنیا کی زیب و زینت سے نظریں موڑنی ہونگی ۔ ۔ ۔ نام ، مقام ، عہدہ ۔ ۔ ۔ اور وزارت کی خواہش دل سے نکالنی ہوگی ۔ ۔ ۔ بزدلی سے توبہ کرنی ہوگی ۔ ۔ ۔ جی ہاں ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کی ملاقات کا شوق ۔ ۔ ۔ دین اسلام کی عظمت کا جنون ۔ ۔ ۔ اور دین کی خاطر کچھ کرنے کا جذبہ ۔ ۔ ۔ دل میں بونا ہوگا ۔ ۔ ۔ اور یہ سب کچھ نصیب ہوگا ۔ ۔ ۔ مدینہ والے پاک محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرنے سے ۔ ۔ ۔ اور ان کی فکر اور کڑھن کو اپنانے سے ۔ ۔ ۔
﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔
طلبہ کرام کیلئے ۔ ۔ ۔ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا وقت آگیا ہے ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو ۔ ۔ ۔ سانس سے زیادہ ایسی جماعت کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ جو حقیقت میں ’’منظم جماعت‘‘ ہو ۔ ۔ ۔ اور ’’بیعت‘‘ پر قائم ہو ۔ ۔ ۔ اس جماعت میں خود مسلمانوں کو پورے اسلام پر لانے کی ترتیب بھی ہو ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے سرفروشی وجانبازی کا شعبہ بھی ہو ۔ ۔ ۔ زمانے کے ’’فرعون‘‘ ایسی ’’اسلامی جماعتوں‘‘ کو برداشت نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ یہ بات سچ ہے ۔ ۔ ۔ مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ وہ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک سے زیادہ طاقت نہیں رکھتے ۔ ۔ ۔ وہ نام و نشان مٹا دینے کی دھمکی ضرور دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ وہ باوجود کوشش کے ۔ ۔ ۔ ایسا کر نہیں سکتے ۔ ۔ ۔ بس یہی بات جس کو سمجھ آجائے گی ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کے پیارے دین کیلئے ۔ ۔ ۔ بہت کچھ کر لے گا ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ۔ ۔ ۔ ہم پر اپنی ’’نظر رحمت‘‘ فرمائے ۔ ۔ ۔ ہمیں ’’فہم و فراست‘‘ ’’حوصلہ وہمت‘‘ ۔ ۔ ۔ اور توفیق عطاء فرمائے ۔ ۔ ۔ اور ہمیں گمراہی اور غلطی سے بچائے ۔ ۔ ۔ یہ کتابچہ ۔ ۔ ۔ تھوڑی سی اصلاح و ترمیم کے بعد ۔ ۔ ۔ دوبارہ طلبہ کرام ۔ ۔ ۔ اور غیور مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہے ۔ ۔ ۔ اگر آپ نے اسے پہلے پڑھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ تو بھی موجودہ حالات کے تناظر میں اسے دوبارہ پڑھ لیں ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ بہت سارے عزائم کو تازگی ملے گی ۔ ۔ ۔ اور اگر آپ پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں تو پھر خود کو ۔ ۔ ۔ اور اپنے آئندہ کے کردار کو ۔ ۔ ۔ اس میں تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ ۔ ۔ اللہ پاک ہم سب کی راہنمائی فرمائے ۔ ۔ ۔ اور اس کتاب کو ۔ ۔ ۔ اپنے دربار عالی میں قبول فرمائے۔
ربناتقبل منا انک انت السمیع العلیم و تب علینا انک انت التواب الرحیم وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیرخلقہ سیدنا محمد خاتم النبین وعلی الہ و صحبہ اجمعین و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا۔ ۔ ۔
محمد مسعود ازہر
۱۷ شوال ۱۴۲۶ھ
۲۰ نومبر بمطابق ۲۰۰۵ء
یوم ا لأحد


۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔














 

 

 



بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

آزادی کی گولڈن جوبلی بڑے زورو شور سے منائی جارہی ہے۔ پاکستان کا جشن تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہوگا یہاں ہندوستان میں بھی پورے ایک سال کے جشن کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ حکمران آزادی کی خوشی میں سرشارہوکر اپنی حصولیابیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں جبکہ حکومت سے محروم سیاستدان (اپوزیشن والے) آزادی کو غلامی سے بدتر بتا رہے ہیں۔ بے جان دیواروں پرجگمگاتے قمقمے ان دیواروں کے پیچھے رہنے والوں کی تاریک زندگی پر مسکرا رہے ہیں۔ کاغذی پھولوں کے انبار مہکتے پھولوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ بوڑھے سیاستدان سربستہ راز کھول رہے ہیں اور تحریک آزادی کی نامور شخصیتوں کی زندگی کے شرمناک خفیہ پہلوؤں پر فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ یہ ہے جشن آزادی۔ معلوم نہیں کب تک اس طرح کے سیاسی جشن منائے جاتے رہیں گے آیئے ہم محبان وطن ان سیاسی میلوں کے شور شرابے سے ہٹ کر ، غفلت اور بے راہ روی کے ماحول سے کٹ کر کچھ کام کی باتیں سوچیں حقائق کو سمجھنے کے لئے کچھ کریں۔ آیئے کچھ سوچنے ، کچھ سمجھنے اور کچھ کرنے کے اس مبارک عمل کا آغاز پچاس سال کے حالات پر ایک نظرڈالنے سے کرتے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔





پچاس سال پہلے کیا ہوا تھا؟

پچاس سال پہلے یعنی چودہ ، پندرہ اگست کو کیا ہوا تھا؟ مختلف لوگ مختلف باتیں بتاتے ہیں بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس دن پاکستان بنا تھا اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا اسلامی ملک ابھرا تھا۔ بعض لوگوںکا خیال ہے کہ اس دن متحدہ برصغیر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس دن برصغیر سے انگریز کے پونے دوسو سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ۱۴! اگست کو پاکستان اور ۱۵! اگست کو ہندوستان آزاد ہوا۔ آپ سوچیں گے کہ یہ سب باتیں ایک ہی مقصد رکھتی ہیں صرف الفاظ یا تعبیر کا فرق ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ سب باتیں مختلف ہیں اور ان باتوں کے پیچھے وہ سیاسی اختلافات کار فرما ہیں جن کو بیان کرنے کیلئے مستقل مضمون کی ضرورت ہے۔
اس سے ہٹ کر اگر ہم پرانے لوگوں سے اس وقت کے زمینی حالات پوچھیں کہ اس وقت ، مشرقی پنجاب ، مشرقی بنگال ، اتر پردیش (یوپی) بہار اور مغربی پنجاب کے بعض علاقوں میں کیا صورتحال تھی تو سب لوگوں کا ایک ہی بیان ہوگا کہ وہاں اس وقت ایک طرح کی قیامت صغریٰ برپا تھی۔ تشدد اور بربریت کا عفریت ننگا ناچ رہا تھا۔ ہر طرف آہیں، چیخیں اور سسکیاں تھیں، دوپٹے اڑ رہے تھے اور عصمتیں تار تار ہو رہی تھیں۔ ہر طرف خوف ، دہشت اور بے یقینی کے سائے انسانوں کو نگل رہے تھے۔ اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ اس وقت کس کا خون بہہ رہا تھا؟ توجواب ملے گا کہ اکثر خون تو مسلمانوں کا بہایا گیا مگر جب مغربی پنجاب کے مسلمانوں نے مشرقی پنجاب سے آنے والے قافلوں کی دلدوز داستانیں سنیں تو کچھ ہندو اور سکھ بھی مارے گئے۔ غیر جانبدار مورخ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ مسلمانوں کا قتل عام تو ایک منظم منصوبے کا حصہ تھا جبکہ ہندوؤں اور سکھوں کا قتل یا تو انتقاماً ہوا یا پھر یہ چند جزوی واقعات تھے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہندوؤں کی ہندوستان منتقلی بہت منظم طریقے سے ہوئی ان کی بڑی تعداد اپنے ہمراہ اپنی تمام تر منقولہ جائیداد بڑے بڑے پریس ، کارخانوں کے آلات ،گھروں کے دروازے اور فرنیچر تک ساتھ لے گئی۔ وجہ یہ تھی کہ ہندوؤں کی اکثریت کو آئندہ پیش آنے والے حالات سے آگاہ کر دیا گیا تھا جب کہ مسلمانوں میں اکثر کی ہجرت انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں ہوئی اور ان کی بڑی تعداد اپنے ساتھ تن کے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ لا سکی۔اگر آپ پوچھیں کہ یہ تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ تقسیم برصغیر کے وقت لاکھوں مسلمان شہید ہوئے اور کافی ہندو اور سکھ بھی مارے گئے لیکن یہ تو بتائیے کہ ظالم انگریزوں کا کیا بنا؟ ان کے کتنے افراد مارے گئے؟ کیونکہ عام طور پر جب کوئی قوم آزادی حاصل کرتی ہے تو انہیں غلام بنا کر رکھنے والوں کے برے دن شروع ہو جاتے ہیں اور انہیں خوفناک انتقام کا سامنا ہوتا ہے۔تو کیا برصغیر میں بھی ایسا ہوا؟ جواب ملے گا۔ یا دش بخیر۔ جس وقت برصغیر کے باشندے ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے اس وقت انگریز نہایت اطمینان کے ساتھ ان مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ اس کی طرف تو کوئی پتھر تک نہ پھینکا گیا۔ بلکہ اس موقع پر اس کی عزت اور اہمیت میں مزید اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک انگریز وکیل لاہور کے ایک عالی شان ہوٹل کے پرآرائش کمرے میں بیٹھا ہوا برصغیر کے نقشے پر سرخ لکیریں کھینچ رہا تھا۔ اس نے جہاں جہاں سرخ لکیر لگائی وہیں وہیں (کچھ عرصہ بعد) خون کی ندیاں بہہ نکلیں یہ انگریز جس نے اس سے پہلے کبھی برصغیر کو دیکھا تک نہیں تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے نقشے کو حتمی شکل دے رہا تھا۔ اس کے قلم سے نکلنے والی ہر لکیر مستقبل میں مسلمانوں کی قوت اور وحدت کیلئے دراڑ ثابت ہوئی۔ دوسری طرف برصغیر کا آخری انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تمام تر شان و شوکت کے ساتھ دہلی کے اپنے محل میں بیٹھا ہوا تھا اور ہندوستان کے سرکردہ لیڈر اس کے گھر کے گرد دیوانہ وار چکر کاٹ رہے تھے۔ ۱۵ اگست کو جواہر لال نہرو اور دوسرے کانگریس لیڈروں نے پہلے پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھواں دار تقریریں کرتے ہوئے قوم کو انگریز سے آزادی پر مبارکباد دی اور پھر اسی اجلاس سے اٹھ کر ان سب لیڈروں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے قدموں میں حاضری دی اور جواہر لال نہرو نے اسے آزاد ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بننے کی دعوت دی۔ جسے اس نے قبول کرلیا غالباً کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے لئے ہندوستان کو ابھی تک انگریزوں کے مزید تعاون کی ضرورت تھی۔ آخر یہ سب کچھ کیا تھا؟ یہ کیسی آزادی تھی؟ کس کی آزادی تھی؟ کس سے آزادی تھی؟ برصغیر کی مٹی سے پیدا ہونے والے کٹ رہے تھے اور ان کو غلام بنانے والا ظالم ہی اس ملک کا گورنر جنرل بن رہا تھا؟ یقیناً یہ جدوجہد سے حاصل کی گئی آزادی نظر نہیں آتی۔ بلکہ یہ سب کچھ ’’کچھ اور تھا‘‘ آگے ہم جن حقائق کو بیان کررہے ہیں ان کو پڑھ کر آپ بھی بے ساختہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ سب کچھ ، کچھ اور تھا۔


ایک سادہ سا سوال
سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں نے برصغیر کا اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا مسلمان ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک برصغیر کے بلا شرکت غیرے حکمران تھے۔ انگریز کی مکاری ، ہندو کی غداری اور مسلمان حکمرانوں کی نااہلی نے قدرتی وسائل سے مالا مال اس عظیم ملک کو انگریز کی جھولی میں ڈال دیا مگر برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کے اقتدار کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ انہوں نے انگریز کے خلاف باربار مسلح تحریکیں شروع کیں۔ انگریزی اقتدار کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بارہا جہاد پر بیعت ہوئی۔ انگریز کی فوج میں بھرتی کے خلاف علمائے حق نے فتاویٰ جاری فرمائے لاکھوں مسلمان انگریز سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہزاروں علماء کرام سولیوں پر لٹکائے گئے اور انہیں سور کی کھال میں سی کر ، تندور میں جلایا گیا۔ ٹیپو سلطان کی یادگار جنگیں ، حضرت شاہ عبدالعزیز کے انگریز کے خلاف فتاویٰ ، ۱۸۵۷ء کی مسلح جدوجہد آزادی ، تحریک ریشمی رومال ، تحریک خلافت ، تحریک احرار ، دارالعلوم دیوبند کا قیام یہ سب کچھ انگریزی اقتدار کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کے ان اور ان جیسے کئی اقدامات نے انگریزی اقتدار کی چولوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انگریز کو کئی بار شدید نقصانات اٹھانے پڑے مگر اس کے باوجود انگریز نے برصغیر چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ وہ ہندوؤں کی مدد اور تعاون سے مسلمانوں کا مقابلہ کرتا رہا اور اس نے کبھی بھی برصغیر کے لیڈروں کو بلاکر نہیں کہا کہ اب میں واپس جارہا ہوں آپ لوگ طے کرلیں کہ آپ نے اکٹھے رہنا ہے یا الگ الگ۔ لیکن پھر اچانک ایک شخص انگریزی لباس اتار کر سادھو کے بہروپ میں منظر عام پر آیا اس کے لاغر جسم پر ایک مختصر سی دھوتی اور ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی یہ شخص تشدد سے نفرت کا اظہار کرتا تھا اور اپنے آپ کو امن کا مسیحا بتاتا تھا اس نے برصغیر میں انگریز کے خلاف عوام کو اکٹھا کیا مگر یہ بھی سمجھا دیا کہ خبردار کوئی تشدد نہیں ہونا چاہئے اس شخص نے نعرہ لگایا کہ انگریز و ! برصغیر چھوڑ دو بس اس کی یہ بات سن کر انگریز تھر تھر کانپنے لگا ادھر اس بہروپئے کے بعض حامیوں نے دو پولیس تھانے جلا ڈالے اور کچھ پولیس والوں کی موت ہوگئی اس واقعے سے دل برداشتہ ہوکر وہ تحریک بند کرنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ انگریز نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں آپ کی اس پرامن تحریک سے بہت ڈرگیا ہوں اور میں اب برصغیر کو چھوڑ کر واپس برطانیہ جارہا ہوں؟
قارئین کرام خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ کہانی اس قابل ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے؟ ممکن ہے کہ اگر کسی بے وقوف شخص یا چھوٹے بچے کو بھی یہ کہانی سنائی جائے تو وہ بھی یقین کرنے پر تیار نہیں ہوگا اور اگر کسی نے انگریزوں کی تاریخ پڑھی ہو اور وہ ان کی فطرت کو سمجھتا ہو تو وہ کبھی بھی اس جھوٹ کو قابل اعتبار نہیں سمجھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ننگے دھڑنگے بے وزن بے ضمیر گاندھی کی شخصیت میں کوئی جادو تھا اور نہ ہی انگریز کو اس کی تحریک سے کوئی خطرہ تھا دراصل انگریز کے برصغیر چھوڑنے کے اسباب یا مجبوریاں کچھ اور تھیں اور وہ اپنے گمان کے مطابق وہ سب کچھ کرچکا تھا جو وہ یہاں کرنا چاہتا تھا۔ اب اس کے بعد وہ مزید یہاں بیٹھنا بے فائدہ بلکہ مضر سمجھتا تھا اس کے مکار پالیسی ساز اسے مسلسل واپسی کا سگنل دے رہے تھے۔ اب اس کی نظر میں صرف دو کام باقی تھے ایک تو وہ برصغیر کا اقتدار اپنے وفادار غلاموں یعنی ہندوؤں کو منتقل کرنا چاہتا تھا اور دوسرا وہ اپنے ازلی دشمنوں یعنی مسلمانوں پر جانے سے پہلے ایک آخری مگر بھرپور وار کرنا چاہتا تھا حالانکہ وہ پہلے ہی مسلمانوں پر تین ایسے زہریلے سانپ مسلط کرچکا تھا جن سانپوں کی موجودگی میں مسلمانوں کے لئے برصغیر کا اقتدار حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔
(ان سانپوں کا تذکرہ ہم تھوڑا سا آگے چل کر کریں گے) مگر پھر بھی وہ مسلمانوں کی رہی سہی طاقت اور وحدت کو توڑنے کے لئے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک فیصلہ کن ضرب لگانا چاہتا تھا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی ان مشترکہ ریشہ دوانیوں کے بیان سے پہلے ہم ان اسباب پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے انگریز برصغیر چھوڑنے پر آمادہ یا مجبور ہوا۔
انگریز کے برصغیر چھوڑنے کے بعض اسباب ۔
انگریز کے برصغیر چھوڑنے کے بہت سارے عالمی اور مقامی اسباب تھے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے گاندھی کی عدم تشدد پر مبنی تحریک سے خوفزدہ ہوکر یہ ملک نہیں چھوڑا یہاں ہم ایک طائرانہ نظر ان اسباب پر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے انگریز نے برصغیر کو چھوڑ دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ تہذیب و تمدن کا ڈھنڈورا پیٹنے اور انسانی حقوق کے نقارے بجانے والے گوروں کا اصل چہرہ کتنا بدنما ہے۔ وہ اپنے مفادات کی خاطر ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جوکوئی بدترین جانور بھی نہیں کرسکتا۔ انگریز کے اس طرح کے حیوانی اقدامات میں سے ایک اقدام ’’جنگ افیون‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ انگریزوں نے اپنے اقتصادی اور تجارتی مفادات کو خطرے میں دیکھ کر چین میں بڑے پیمانے پر افیون کی اسمگلنگ کی تاکہ چینی عوام افیون کے نشے میں غرق ہوکر تباہ ہوجائے۔ انگریز کے اس خوفناک بہیمانہ اقدام کے ردعمل کے طورپر چین اور سلطنت برطانیہ کے درمیان جنگ ہوئی اور چین کو ہانگ کانگ سے ہاتھ دھونا پڑا اور ہانگ کانگ انگریزوں کے قبضے میں آگیا (جولائی ۱۹۹۷ء میں انگریز نے گھٹنے ٹیک کر ہانگ کانگ چین کو واپس کردیا ہے) اس شکست کے بعد چین نے خود کو ایک بڑی مسلح قوت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ جبکہ برطانوی اقتدار آہستہ آہستہ سمٹتا جارہا تھا انگریز جانتا تھا کہ چینیوں کے دل میں انگریز کے خلاف نفرت کا لاوہ پک رہا ہے اور خود ہندوستان میں بائیں بازو کی تحریک تیزی سے قوت پکڑ رہی تھی۔ ان حالات میں انگریز کسی بھی وقت برصغیر میں چین کے غیظ و غضب کا شکار بن سکتے تھے اور برصغیر بائیں بازو کا حصہ بن کر امریکہ اور یورپ کے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔ اس لئے انگریز برصغیر کا اقتدار اپنے وفاداروں کو دے کر مستقبل میں اس ملک کو اپنے اور امریکہ کے وفاداروں میں شامل رکھنا چاہتا تھا۔ یہ اور اس طرح کے کئی بیرونی اور عالمی عوامل انگریز کو برصغیر چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے جبکہ داخلی طورپربھی اس طرح کے گہرے عوامل موجود تھے۔ مثلاً انگریز برصغیر میں صرف دولت لوٹنے کے لئے آیا تھا اور وہ یہ کام مکمل کرچکا تھا اور اب برصغیر کی رگوں میں کچھ بھی نہ بچا تھا یہ تو آپ جانتے ہیں کہ انگریز نہ تو کوئی مصلح تھا کہ برصغیر میں اصلاحی انقلاب لانا چاہتا ہو اور نہ وہ یہاں امن قائم کرنے آیا تھا بلکہ وہ ایک بین الاقوامی لٹیرا تھا اس نے ایک منٹ ضائع کئے بغیر برصغیر کو ہر طرف سے لوٹا۔ اور ہر طرح سے لوٹا۔ اور اب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد اس ملک میں بیٹھنا فضول سمجھتا تھا۔ چنانچہ وہ بھوک ، افلاس، گندگی ، بیماری ، غلاظت اور معاشی عدم توازن کے ڈھیر اپنے پیچھے چھوڑ کر واپس جانے کیلئے تیار بیٹھا تھا۔ اسی طرح عالمی جنگوں کے خاتمے کے بعد اب برطانیہ کو اپنی فوج کی افرادی قوت کیلئے برصغیر کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ اور ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ انگریز کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی محکوم قوم کو ان خرابیوں میں مبتلا کر دیتا تھا جن کی بدولت وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی تھی اور اسی طرح انگریز اپنی ہر محکوم قوم کو تہذیبی طورپر اپنا ایسا غلام بنالیتا تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد بھی یہ قومیں انگریز کے پیچھے اندھادھند دوڑتی رہتی ہیں اور انگریز کو ایک ظالم سمجھنے کی بجائے اسے اپنا ہیرو سمجھتی رہتی ہیں۔ یہاں برصغیر میں بھی انگریز نے یہ حربہ آزمایا اور اس نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی اس نے برصغیر میں ایسا تعلیمی نظام رائج کردیا تھا جس کی موجودگی میں اب خود انگریز کے یہاں بیٹھنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس نظام تعلیم کی بدولت اس ملک میں انگریز ہی کا نظام چلتا رہے گا اور انگریز کے مفادات کو اس کی غیر موجودگی میں بھی تحفظ حاصل رہے گا۔ اس نظام تعلیم کے بانی لارڈمیکالے نے سینہ تان کر یہ اعلان کیا تھا کہ اب برصغیر کے نوجوان شکل و صورت میں اگرچہ ہندوستانی ہوں گے مگر وہ ذہنی اور تہذیبی طورپر برطانیہ کے غلام ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس نظام تعلیم نے جسمانی اورملکی غلامی کو ذہنی اور تہذیبی غلامی میں بدل دیا۔ اور بدقسمتی یہاں تک آپہنچی کہ اس کی غلامی کو ترقی، روشن خیالی اور وقت کا تقاضہ سمجھا جانے لگا۔ انگریز نے جب یہ دیکھ لیا کہ اس نظام تعلیم کے ڈسے ہوئے افراد برصغیر کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوچکے ہیں اور ان لوگوں کے اقتدار سنبھالنے سے انگریز کے مفادات محفوظ رہیں گے اور ان حکمرانوں کے طرز عمل کی بدولت یہاں کی عوام انگریز کے مظالم کو بھول جائے گی اور ظاہری آزادی کے بعد بھی وہ انگریز کو اپنا تعلیمی ، ثقافتی اور تہذیبی آقا سمجھے گی اور ان کی آمدن اور مال و دولت کا خراج برطانیہ کو پہنچتا رہے گا تو اس نے واپسی کا عزم کرلیا اور اقتدار برصغیر کے آکسفورڈ زدہ طبقے کے حوالے کردیا اس طبقے نے ملکی نظام کو انگریز کی ڈگر سے نہیں ہٹنے دیا اور انہوں نے ہمیشہ برطانیہ کو اپنا تہذیبی قبلہ سمجھا ان کے دور اقتدار میں انگریز کو برصغیر میں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو وہ چاہتا ہے۔ آج بھی یہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک انگریز ہیں۔ انگریز کے پروردہ جاگیردار برصغیر کی رگوں سے جتنا خون نچوڑتے ہیں اس کا اکثر حصہ اپنے آقا انگریز کے قدموں اور رخساروں پر نچھاور کر آتے ہیں ممکن ہے آپ کو یہ پڑھ کر تعجب ہوگا کہ صرف علاج کے نام پر برصغیر کے جاگیردار اور سیاستدان ہر سال اربوں ڈالر انگریز کی جیب میں ڈال آتے ہیں جبکہ عیش و عشرت پر خرچ ہونے والی رقم کا تو حساب ہی مشکل ہے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ تمام رقم صحیح طریقے سے خرچ کی جائے تو برصغیر کی خوفناک اور شرمناک غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے مگر یہ کون سوچے؟ ایسی باتیں تو آزاد قومیں سوچا کرتی ہیں۔

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔














 

 

مسلمانوں پر انگریز کی طرف سے مسلط کردہ تین سانپ
٭ مذہبی فرقہ واریت ٭ علاقائیت اور لسانیت پر مبنی جاگیردارانہ نظام٭ انگریزی نظام تعلیم
انگریز کو ہندوؤں پر زیادہ محنت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہندو کے نزدیک سب سے مقدم اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اگر اس کے مفادات پورے ہوتے رہیں تو اسے نہ آزادی سے غرض ہے نہ غلامی سے۔ اسی طرح ہندو تہذیبی اوراخلاقی پستی کی ان حدود تک پہنچ چکا ہے کہ اب اسے مزید بگاڑنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے تھوڑی بہت جو کسر تھی انگریز نے وہ تمباکو اور شراب کو سستا کرکے پوری کردی تھی اور جنسی بے راہ روی کو ایک فیشن قرار دے کر اس نے ہندوؤں کی اس مشکل کو بھی آسان کردیا تھا۔ اس لئے انگریز کو ہندو سے کوئی خطرہ حال ومستقبل میں نہیں تھا البتہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا تھا اسے نہ تو صلیبی جنگیں بھولی تھیں اور نہ روما کی عظیم الشان سلطنت کا زوال۔ اس لئے اس نے اپنے پورے دور اقتدار میں مسلمانوں کو کچلنے کیلئے ہرحربہ آزمایا اور وقت ضائع کئے بغیر دن رات مسلمانوں کوجڑ سے اکھاڑنے کی کوشش میں لگا رہا۔ اسے مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے ہر وقت خوف لگا رہتا تھا اس لئے وہ جہاد کے نام سے چڑتا تھا اور وہ مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ ہم (انگریز) مسلمانوں کے نہیں بلکہ جہاد کے مخالف ہیں اس لئے جو مسلمان جہاد سے دستبردار ہوجائیں گے وہ ہمیں قابل قبول ہیں۔ انگریز دانشوروں اور مفکروں کا اتفاق تھا کہ مسلمانوں میں جب تک جذبہ جہاد زندہ ہے انہیں نہ تو زیر کیا جاسکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا ہے چنانچہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے انہیں جہاد سے دور کیا جائے اور جب مسلمان جہاد سے دور ہوجائیں گے تو پھر ان کو جس طرح سے چاہیں تباہ کیا جاسکتا ہے چنانچہ مسلمانوں سے جذبہ جہاد کو ختم کرنے اور انہیں تباہ کرنے کیلئے انگریز نے بھرپور جدوجہد اور دن رات کی مکاری کے نتیجے میں تین سانپ ان پر مسلط کردیئے اور انگریز دانشوروں کو یقین ہوگیا کہ جب تک یہ سانپ مسلمانوں پر مسلط رہیں گے مسلمان جہاد پر کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔ چنانچہ انہیں دبانا اور تباہ کرنا آسان ہوجائے گا اور مسلمان کبھی بھی برصغیر میں اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اب ہم انگریز کے مسلط کردہ ان تین سانپوں (مذہبی فرقہ واریت۔ علاقائیت اور لسانیت پر مبنی جاگیردارانہ نظام۔ انگریزی نظام تعلیم) اور ان کے نقصانات کو قدرے اختصار سے بیان کرتے ہیں۔


۱۔مذہبی فرقہ واریت
انگریز نے ان کمزور پہلوؤں پر خاص طور سے غور کیا جن پہلوؤں سے وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوسکتا تھا اور انہیں اسلام اور جہاد سے دور کرسکتا تھا ان پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو مذہبی فرقہ واریت اور دین کے نام پر اٹھائے جانے والے فتنے تھے اگرچہ ان کے جراثیم انگریز کے آنے سے پہلے پیدا ہوچکے تھے مگر انگریز نے ان کو تناور درخت بنادیا اور پونے دو سو سال تک ان کی اس طرح سے بھرپور آبیاری کی کہ یہ اختلافات اور فتنے مسلمانوں کیلئے مستقل وبال جان بن گئے۔ مسلمان چوتھی صدی ہجری محمود غزنوی کے زمانے میں نہایت مضبوط قدموں کے ساتھ برصغیر میں داخل ہوئے تھے۔ (اگرچہ ان کی آمد اس سے بھی بہت پہلے شروع ہوچکی تھی) یہ سب مسلمان دین میں متحد تھے اور ان کے دلوں میں نور ایمان موجزن تھا۔ ان کے باہمی اتحاد اور اللہ تعالیٰ پر ان کے بھروسے کی بدولت بڑے بڑے پہاڑ ان کے آگے ریزہ ریزہ ہوگئے۔ یہ شاندار زمانہ مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیرؒ کے کچھ زمانہ بعد تقریباً ۱۱۵۰ھ تک قائم رہا۔ لیکن ہندو مذہب کے مکار پیشوا مسلمانوں کی تاک میں تھے ان کا طریقہ ہمیشہ سے کھل کر مقابلہ کرنے کی بجائے چھپ کر اور بھیس بدل کر وار کرنے کا رہا ہے۔ جس مذہب نے بھی برصغیر کے ہندوؤں کو شرک کی غلاظت سے کچھ دور کرنے کی کوشش کی یہ ہندو پیشوا بھیس بدل کر اس مذہب میں شامل ہوئے اور پھر انہوں نے خود اس مذہب کو شرک پر لگا دیا۔ ماضی میں بدھ مت اور جینی مذہب سے ہندو پیشواؤں نے اسی طرح انتقام لیا اور آج یہ دونوں مذہب بت پرستی اور شرک میں ہندوؤں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ مگر مسلمانوں پر وار کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ برصغیر کے ہندو دھڑا دھڑا سلام کے نور سے منور ہوکر پکے مسلمان بن رہے تھے اور یہ صورتحال دیکھ دیکھ کر ہندو برہمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے چنانچہ انہوں نے مختلف طریقے استعمال کرکے آہستہ آہستہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو شرک پر لگا دیا۔ (ہندوؤں نے جو طریقے اس کام کے لئے استعمال کئے اگرچہ ان کا تذکرہ بہت دلچسپ اور عبرت آموز ہے لیکن مضمون کے طویل ہوجانے اور اصل موضوع سے ہٹ جانے کے خوف سے ان کو ذکر نہیں کیا جارہا)
چنانچہ تصوف اور سلوک (جو مسلمانوں کے دلوں میں توحید کو راسخ کرنے کا ذریعہ تھا) کی مقدس اصطلاحوں کو شرک و بدعت کی ترویج کیلئے استعمال کیا گیا۔ مسلمانوں میں بھی بتوں کی طرح قبروں کی پوجا شروع ہوگئی یہ نام کے مسلمان اولیاء اللہ کے لئے وہی صفات ثابت کرنے لگے جو ہندو اپنے دیوتاؤں کے لئے کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ملنگ ، بابے ، پہنچے ہوئے ننگے دھڑنگے اور ہندوؤں کے مقدس (کیسری ، زرد) رنگ کی چادریں اوڑھے ہاتھوں میں کڑے اور گلے میں مالائیں ڈالے فراڈی پیدا ہوگئے حالانکہ یہ سب کچھ پہلے صرف ہندوؤں میں ہوا کرتا تھا۔ چونکہ اس خالص شرک اور خوفناک بدعات کے طوفان نے مسلمانوں کو بے حد نقصان پہنچایا تھا اور کئی ہندو برہمن مسلمان بزرگوں کا روپ دھار کر کئی بڑی بڑی نام نہاد روحانی گدیاں چلا رہے تھے اور اسلام میں شرک کی غلاظت گھول رہے تھے انگریز نے اس چیز کی طرف خاص توجہ دی اور اس خوفناک گمراہی کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس نے نئے نئے مزار تعمیر کروائے۔ جعلی پیروں (جن میں سے اکثریت ہندو برہمنوں کی تھی جو ظاہری طور پر مسلمان بنے ہوئے تھے) کو بڑی بڑی جاگیریں اور جائیدادیں دیں تاکہ یہ پیر مسلمانوں کو نماز ، روزہ اور جہاد سے ہٹاکر قبروں اور ملنگوں کے سامنے سجدے کروائیں۔ اس طرح سے شرک کا ایک سیلاب امڈ آیا جواب تک مسلمانوں کے دین ، ایمان اور جذبے کو تباہ کر رہا ہے۔ ہزاروں جعلی پیر اور ہزاروں مندر نما مزار مسلمانوں کو دن رات گمراہ کررہے ہیں اور ان پیروں اور مزاروں سے وابستہ انسان انگریز کی خواہش کے مطابق نام کے مسلمان تو ہیں مگر حقیقت میں اسلام سے بہت دور جا پڑے ہیں اس طرح انگریز نے مسلمانوں کو جہاد سے ہٹانے اور دین سے دور کرنے کیلئے مرزا غلام قادیانی کی شکل میں جھوٹی نبوت کھڑی کی۔ جو آج تک برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک مصیبت بنی ہوئی ہے قادیانیوں کی شکل میں انگریز کے ایجنٹ برصغیر کے مسلمانوں کے ایمان اور ان کی سرحدوں کے لئے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں اور مرزا قادیانی کے جہاد کے خلاف پھیلائے گئے وسوسے بھی دور دور تک پھیل چکے ہیں۔ اسی طرح سرسید احمد خان کی قیادت میں نیچری فرقہ کھڑا ہوا۔ انگریزی تعلیم یافتہ یہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کا شارح اور قرآن کا مفسر سمجھتے ہیں اور اپنی غلامانہ ذہنیت اور اندرونی احساس کمتری کی وجہ سے قرآن میں کھلم کھلا تحریف کرتے ہیں ان لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے ہر اس حکم کو بدل دینا چاہتے ہیں جو حکم اہل یورپ یا اہل امریکہ وغیرہ کی تنقید کا نشانہ بنا ہو یہ لوگ اپنے گمان میں اسلام کو بدنامی سے بچانے کی مہم چلا رہے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اسلام کی جڑیں کاٹنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح انگریزی دور اقتدار ہی میں منکرین حدیث کا فتنہ کھڑا ہوا عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلحدیث بنا پھر اس نے حدیث کا انکار کر دیا۔ دوسری طرف دہلی کے ایک عالم دین (جو برصغیر کے نامور حنفی اکابر کے شاگرد تھے) مولانا نذیر حسین صاحب مرحوم نے بدعات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے متبعین کو ازسرنو حدیث کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی ان کا ابتدائی مقصد یہی تھا کہ لوگ حدیث شریف پڑھیں گے اور بدعات سے بچیں گے مگر ان کے ماننے والوں نے چند فروعی مسائل کو اپنا اصل موضوع بنالیا اور اسلاف ، ائمہ کرام اور بزرگوں پر لعن طعن کرنے لگے۔ جس طرح خوارج یہ کہتے تھے کہ تمام صحابہ کرام اور دیگر مسلمان اس لئے کافر ہیں کہ وہ اللہ رسول کو چھوڑ کر حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کو مانتے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دوسرے تمام مسلمان اللہ اور رسول کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ کو مانتے ہیں اس لئے یہ سب کافر و مشرک ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں میں سے اکثریت خود علم حدیث سے واقف نہیں تھی بلکہ ان کے علماء انہیں جو کچھ بتادیتے تھے اور کسی کتاب کی جو حدیثیں دکھا دیتے تھے یہ لوگ اسی پر عمل کرتے تھے۔ گویا کہ اپنے زمانے کے علماء کے پکے مقلد تھے۔ مگر انہوں نے اکابر ائمہ کی تقلید کو شرک قرار دے دیا اور بڑے بڑے اشتہارات نکال کر خوب ہنگامہ کیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انگریز کے زمانے میں فرقہ واریت اور گمراہی کا سانپ مسلمانوں پر پوری قوت سے حملہ آور ہوا چنانچہ اسی کے زہر کا اثر ہے کہ آج کئی پرانے برہمن خود کو سید اور شاہ لکھ کر مشائخ کرام کی گدیوں پر بیٹھے ہیں اور لاکھوں مسلمان اپنی نمازیں معاف کروانے گناہ بخشوانے اور جنت پانے کیلئے ان بدبختوں کو ٹیکس ادا کررہے ہیں ان کنگن پہننے والے پیروں نے امت کے لاکھوں افراد کے ہاتھوں میں بزدلی کی چوڑیاں پہنا دی ہیں چنانچہ وہ جہاد کا نام تک نہیں لیتے۔ ہر دن نئے خواب دیکھ کر نئے مزار تعمیر ہورہے ہیں اور ان مزاروں کی آمدنی کے کروڑوں روپے ان پیروں کے خاندانوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اسی سانپ کا اثر ہے کہ آج ہزاروں مسلمان مرغوں کی طرح رفع یدین اور آمین بالجہر جیسے ان مسائل پر لڑ رہے ہیں جن مسائل پر مسلمان صدیوں سے ایک دوسرے پر طعن کئے بغیر عمل کررہے تھے۔ اسی سانپ کا اثر ہے کہ وحید الدین خان جیسا نیچری ہندوستان کی مشرک حکومت کی سرپرستی میں ایک نیا اسلام ترتیب دے رہا ہے۔ قادیانیت اور انکار حدیث کے فتنے اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ موجود بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ہر دن کوئی شخص اٹھتا ہے اور امت کو تحقیق کے نام پر کسی نئے جال میں الجھا لیتا ہے۔ انگریز یہ زہر کھلا کر مطمئن تھا کہ اب نہ تو یہ مسلمان جہاد کرسکیں گے اور نہ ان میں خلافت قائم ہوگی۔ بلکہ وہ آپس میں مرغوں کی طرح ایک دوسرے کو لہولہان کرتے رہیں گے۔


۲۔ علاقیت اور لسانیت پر مبنی جاگیردارانہ نظام


انگریز نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور جہاد سے انہیں دور رکھنے کیلئے دوسرا سانپ علاقائی عصبیت اور لسانیت پرستی کا مسلط کیا وہ جانتا تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر انگیز دعوت کی بدولت ہمیشہ رنگ و وطن سے بالاتر ہوکر ایک جسم کی طرح رہتے ہیں۔ ہر کلمہ گو مسلمان دوسرے کلمہ پڑھنے والے کا بھائی ہے۔ علاقائی حدود ، ملکی بارڈر ، رنگ ، زبانیں اور وطن انہیں جدا جدا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کو مٹانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی کیونکہ اگر مغرب کے کسی کونے سے کوئی مسلمان پکارتا ہے تو پوری دنیا کے مسلمان اس کی مدد کیلئے متحد ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی اخوت کے اس شہد سے میٹھے رشتے کو ختم کرنے کیلئے انگریزوں نے جاگیردارانہ نظام کا سہارا لیا۔ اس نے اپنے وفادار چپڑاسیوں اور دست بستہ نوکروں کی اولاد کو کیمرج اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کیلئے بھیجا جب وہ پڑھ کر واپس آئے تو ان کو اعلیٰ ملازمتیں اور بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ انگریز کے پروردہ یہ جاگیردار ایک طرف اپنے علاقے اور اپنی قوم کے افراد کا خون چوستے تھے اور ان سے دن رات بیگار لیتے تھے اور ان کے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھتے تھے تو دوسری طرف وہ ان مظلوم افراد میں علاقائی اور لسانی عصبیت کا زہر بھی بھرتے تھے اور ان پسے ہوئے مظلوموں کو یہ باور کراتے تھے کہ ہم تمہارے محافظ ہیں اگر ہم نہ ہوں تو دوسرے علاقے والے اور دوسری قوم والے تمہیں ختم کردیں گے۔ روٹی کے ایک ایک لقمے اور کپڑے کے ایک ایک لتے کے محتاج یہ بیچارے مظلوم یہی سمجھتے تھے کہ ان کے یہ آقا ان سے سچ کہہ رہے ہیں۔ اگرچہ علاقائیت کے یہ جراثیم انگریز سے پہلے بھی موجود تھے مگر انگریز نے اس نظام کو اتنی طاقت دی کہ برصغیر کے کروڑوں غریب عوام اپنے عیاش ، بدکار اور بدخصلت جاگیرداروں کے باقاعدہ غلام بن کر رہ گئے۔ یہ جاگیردار اپنے ہم قوم غلاموں کا خون چوس کر ان سے اپنی دولت بناتے تھے اور ان کی وفاداری کو پکا بنانے کیلئے ان میں علاقہ پرستی کا زہر گھولتے تھے اور پھر اپنی زمینوں کا خراج لے کر یہ جاگیردار انگریز کے دربار میں حاضری دیتے تھے اور اس کے بوٹ اپنی پگڑیوں سے صاف کرتے تھے انگریز اپنے ان وفادار لفافوں سے مطمئن تھا اور اسے یقین تھا کہ جمہوری نظام میں اس کے یہی وفادار ہی غریبوں کے ووٹ لے کر حکومتیں بنائیں گے اور برصغیر کا جاگیردارانہ جمہوری نظام انگریز کی وفاداری پر ہی استوار ہوگا۔
۳۔ انگریزی نظام تعلیم

انگریز کی پوری کوشش تھی کہ مسلمان مسلمان نہ رہیں۔ یعنی وہ نام کے تو مسلمان ہوں مگر عملاً وہ عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرح چند مذہبی رسوم کی ادائیگی ہی کودین سمجھیں یا پھر کیمونسٹوں اور ملحدوں کی طرح دین کا مذاق اڑائیں۔ چنانچہ ایک مشہور پادری نے برصغیر میں کام کرنے والی عیسائی مشنریوں کے ایک اجلاس میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارا مقصد اب یہ نہیں رہا کہ ہم یہاں کے مسلمانوں کو عیسائی بنائیں بلکہ ہماری تمام تر جدوجہد اس لئے ہے کہ مسلمان ، مسلمان نہ رہیں۔ انگریز کی اس خواہش کی تکمیل اس نظام تعلیم نے کردی جو اس نے برصغیر میں ایک سانپ کی طرح مسلط کیا۔ اس نظام تعلیم نے پہلا سبق یہی دیا کہ دین الگ ہے اور دنیا الگ ، دین ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ جبکہ دنیا میں ترقی ہی انسان کی معراج ہے اس نظام تعلیم نے مسلمانوں کو بددینی اور بے راہ روی میں انتہائی تیزی سے مبتلا کیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد خود کو کفار کی طرح کھانے کمانے والی ایک مشین سمجھنے لگی۔ اسی نظام تعلیم کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو علماء کرام کی مخلص قیادت سے محروم کردیا گیا۔ کیونکہ انگریزی نظام تعلیم کے پڑھے لکھے مسلمان قرآن و حدیث کے ماہرین علماء سے نفرت کرتے تھے۔ دوسری طرف فیشن اور جدت کے نام پر ایسی مہم چلائی گئی جس کی وجہ سے لوگوں کے اخراجات اور مالی ضروریات بڑھ گئیں اور لوگ دنیا کے غلام بنتے چلے گئے۔ اور دین آہستہ آہستہ ان کی زندگیوں سے نکلتا چلا گیا۔ اگرچہ مسلمانوں کی مخلص دینی قیادت نے ان تین سانپوں کے خطرات کو محسوس فرماتے ہوئے تین انتہائی معقول انتظام کرلئے تھے۔(ان تین انتظامات کو ہم آگے چل کر بیان کریں گے) ان انتظامات ہی کی برکت سے آج دین اسلام برصغیر میں زندہ و تابندہ ہے لیکن انگریز کے تینوں حربے کافی حد تک کامیاب رہے مگر انگریز اس سخت جان قوم کو خوب جانتا تھا اس لئے وہ جانے سے پہلے مسلمانوں پر آخری مگر زوردار وار کرنا چاہتا تھا اور اس کام میں اسے ہندوؤں کی مکمل تائید اور بھرپور حمایت حاصل تھی۔


انگریزوں اور ہندوؤں کی مشترکہ سازش  
انگریز کے عزائم واضح تھے اور اس کی شبہہ پاکر بر ہمنی سامراج بھی اپنے اصل روپ میں ظاہر ہورہا تھا وہ برہمن جس نے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی کاسہ لیسی اور نعل برداری کی تھی اب مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور کہہ کر طعنے دے رہا تھا مغل بادشاہوں کے زمانے میں ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگانے والے ہندوؤں نے اب کئی جنونی مذہبی تنظیمیں بنالیں تھیں جو بھارت ماتا ،اکھنڈ بھارت ، گائے اور گنگا کی حفاظت اور رام لکشمن تہذیب کے نعرے لگا رہی تھیں انگریز نے فوج اور سرکاری ملازمتوں میں ان کو کلیدی عہدے دے رکھے تھے چنانچہ برصغیر کی حکومت عملاً ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔ انگریز کا رویہ مسلمانوں سے معاندانہ تھا اور ہندوؤں کا مسلمانوں سے رویہ متعصبانہ تھا گویا کہ برصغیر کے مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان دب رہے تھے۔ آج ہندوستان کے ہندو یہاں کے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے بڑوں نے تو برصغیر کو تقسیم کرادیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کی بات سب سے پہلے متعصب ہندو پارٹیوں نے شروع کی تھی اور وہی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور ختم کرنے کی باتیں کیا کرتی تھیں۔ دراصل ہندو کو سمجھنا مشکل کام ہے اسی لئے ہندوؤں کے بارے میں مسلمانوں کی رائے ہمیشہ آپس میں مختلف ہوجاتی ہے تاریخ اور تجربہ دونوں گواہ ہیں کہ ہندو کبھی ظاہری طور پر ایک حالت میں نہیں رہتا اس کا رویہ کمزور کے ساتھ الگ ہوتا ہے اور طاقتوروں کے ساتھ الگ ہندو کا مذہب یہی ہے کہ ہر طاقتور کی پوجا کرو اور ہر کمزور کو نگل جاؤ۔ ایک کمزور ہندو کو اگر اچانک طاقت مل جائے تو اس کی ہر چیز اس طرح بدل جاتی ہے کہ اس کا باپ بھی اسے نہیں پہچان سکتا۔
اس لئے ہندو کو سمجھنے اور اس کے ساتھ برتاؤ کرنے کے بارے میں مسلمانوں میں ہمیشہ اختلاف رائے ہو جاتا ہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ ہندو حالات اور افراد کے مطابق اپنا رنگ اور اپنا انداز بدلتا ہے چنانچہ مختلف افراد اس کے متعلق مختلف رائے رکھتے ہیں مثال کے طور پر آپ عرب امارات کے کسی عربی شیخ سے پوچھئے کہ ہندو کیسا ہوتا ہے تو وہ شیخ صاحب واللہ باللہ تاللہ (یعنی قسم کھاکر) کہہ کے ہندو کی تواضع ، گراوٹ ،بے نفسی، گھٹیا سے گھٹیا کام خوش دلی سے کرنے کی صفت اور ہروقت دونوں ہاتھ جوڑ کر جھکے رہنے کے انداز اور اس کی غلاموں سے بڑھ کر اطاعت کے گن گائیں گے۔ وجہ صاف ہے کہ ہندو دوٹوک کہتے ہیں کہ جو تمہیں تنخواہ دیتا ہے وہ تمہارا بھگوان (خدا) ہے پھر آپ عرب شیخ جی کے اس لاڈلے ملازم یا غلام کا پچھلا ریکارڈ کھولیں تو معلوم ہوگا کہ وہ ریٹائر فوجی ہے اور کشمیر میں تعینات رہا ہے اب آپ کشمیر کے ان مظلوم مسلمانوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھیں تو آپ کو چنگیز اور ہلاکو کی بربریت یاد آجائے گی۔ یہ تو بہت لمبی مثال ہوگئی۔ آپ اگر چاہیں تو صرف دو گھنٹے میں تصویر کے یہ دونوں پہلو دیکھ سکتے ہیں وہ اس طرح کہ کشمیر میں جب ان ہندو فوجیوں کا سامنا مسلح مجاہدین سے ہوتا ہے تو وہ اپنے افسروں کو روند کر اس طرح بھاگتے ہیں کہ بارہ سنگھا (ہرن) بھی رشک کرتا ہے لیکن جب حملہ ختم ہو جاتا ہے اور ان فوجیوں کے سامنے اس علاقے کے نہتے عوام ہوتے ہیں تو پھر ان کی باتیں سننے کی اور انداز دیکھنے کا ہوتا ہے اور ان کی بربریت ناقابل بیان ہوتی ہے۔ یہی معاملہ ان کا قیدیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ہندو کے مزاج اورانداز کو اس قدر تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہے کہ اس کے تناظر میں قارئین آگے آنے والی کچھ اہم باتوں کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مکار انگریز برصغیر میں فریبی ہندو کو اپنا جانشین مقرر کرچکا تھا۔ کانگریس کی تمام قیادت بشمول گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو انگریز کی مکمل غلام تھی۔ ان اندوہناک حالات میں اگر مسلمانوں کی دینی قیادت میدان میں نہ اترتی تو برصغیر دوسرا سپین بننے کیلئے تیار تھا۔ لیکن مسلمان قیادت نے اس خطرے کو بروقت بھانپ لیا اور وہ پوری قوت سے ایک بار پھر میدان سیاست میں اترے اس وقت حالات بڑے عجیب تھے انگریز ، ہندو اور مسلمانوں کے جاگیردار لیڈر مسلمانوںکو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ مشہور سیاسی ہستیاں منافقت سے کام لے رہی تھیں راتوں کو شراب کے پیگ اور دن کو اسلام زندہ باد کے نعرے ان کی خاص ادا بن چکی تھی۔ ہندو راہنما رات کو مسلمانوں کے خاتمے کی باتیں اور انہیں دوبارہ ہندو بنانے کے عزائم پر مشورے کرتے اور دن کو ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگاتے تھے۔ ہر طرف سازش اور نفاق کا سیاہ دھواں پھیلا ہوا تھا۔ اس خوفناک اور مہیب گھٹاٹوپ اندھیرے اور بلاخیز طوفان میں چند مخلص افراد مسلمانوں کی کشتی کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کررہے تھے۔ یہ کوئی معمولی افراد نہیں تھے۔ ان میں سے ہر فرد ایک پورا عالم (جہاں) تھا ہر ایک کی ذات ایک مکمل انجمن تھی یہ افراد نور کے دریا اور روشنی کے فوارے تھے ماضی میں بھی انہوں نے انگریزی سازشوں کے مقابلے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں پر انگریز کے مسلط کردہ تین سانپوں کا سرکچلنے کیلئے ایسے انتظامات کردیئے تھے کہ اگر بعد والے ان کے جانشین ان انتظامات کو ترقی دیتے تو یہ سانپ اپنی موت آپ مرجاتے۔ اس دور کے یہ بہترین افراد انگریز کی آخری سازش سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے پھر میدان سیاست میں اترے مگر ان زلزلہ خیز حالات میں ان حضرات کا ایک رائے پر متفق رہنا ممکن نہ ہوسکا اور مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کے طریقہ کار میں ان حضرات کا اختلاف ہوگیا۔

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔




















 

 

 

مسلمانوں کی دینی قیادت

اختلاف رائے اور اس کی وجوہات
مسلمانوں کی دینی قیادت کے سامنے صرف ایک ہی ہدف تھا اور وہ تھا چاروں طرف سے طوفان میں گھرے برصغیر کے مسلمانوں کی حفاظت۔ یقینا اس وقت کی دینی قیادت کے مضبوط دل گردے اور ان کی بے پناہ بصیرت اور فراست کی جس قدر تعریف کی جائے وہ کم ہے یہ لوگ اگر اپنی جان اور عزت خطرے میں ڈال کر برصغیر کے مسلمانوں کا مستقبل نہ بچاتے تو ممکن ہے کہ آج ہم میں سے بہت سارے افراد شرک کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوتے۔ مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے جانشین حکیم الامتہ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ؒ اور ان کے ہم فکر علماء کرام اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کے جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور ان کے ہم فکر علماء کرام موجود تھے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان حضرات میں کام کے طریقہ کار میں اختلاف ہوا مگر ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہی حضرات مسلمانوں کی حفاظت کا ظاہری ذریعہ بنے اور ان کا خیر خواہی پر مبنی یہ اختلاف بھی امت کیلئے رحمت بن گیا۔ اب ہم مختصر طورپر علماء کرام کی دونوں آراء اور ان کے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں۔
علمائے حق کی ایک رائے

علماء حق میں سے ایک جماعت کی رائے ان لوگوں کے ساتھ تھی جو مسلمانوں کیلئے برصغیر میں ایک الگ ملک کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان حضرات کا نقطہ نظریہ تھا کہ اب ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کا گزارہ ناممکن ہے جبکہ انگریز کے متروکہ جمہوری نظام میں اکثریت کے بل بوتے پر برصغیر میں ہندوؤں کا اقتدار ہوگا مسلمان جو پہلے سے ہی (انگریزی دورسے) ہر شعبے میں محکوم تھے اب اور دب جائیں گے۔ جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق ہر جگہ ہندو افراد اور ہندو تہذیب کی یلغار ہوگی اور مسلمان اس میں سسک سسک کر دم توڑ دیں گے۔ ان علماء حضرات کے پیش نظریہ بات بھی تھی کہ مسلمانوں نے انگریز کے پونے دوسو سالہ دور اقتدار میں بے شمار قربانیاں اس لئے نہیں دی تھیں کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو یہاں حکومت کرے اوراقتدار عیسائیوں کے بعد مشرکوں کے ہاتھوں میں چلا جائے ، حالانکہ مشرک عیسائیوں کی بنسبت مسلمانوں کے زیادہ سخت دشمن ہیں۔ ان کی یہ دلیل بھی تھی کہ اگر برصغیر متحد رہتا ہے تو حکومت یقیناً مشرکوں کے پاس ہوگی پھر کچھ مسلمان فوج میں بھی بھرتی ہوں گے تو یہ منظر کتنا خوف ناک ہوگا کہ امت مسلمہ کے بیٹے شرک کے اقتدار اعلیٰ کو بچانے کیلئے اپنا خون لٹا رہے ہوں گے۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ اگر ملک متحد رہتا ہے تو انگریزوں اور ہندوؤں کی یہ سازش پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گی کہ اب برصغیر پر کبھی بھی مسلمان حکومت نہ کرسکیں گے لیکن اگر الگ ملک بنایا جائے تو یہ سازش ناکام ہوجائے گی کیونکہ پورے برصغیر پر نہ سہی اس کے ایک بڑے حصے پر تو خالص مسلمانوں کا اقتدار ہوگا۔ ان حضرات کی نظر ان متعصب ہندو تنظیموں کی کارروائیوں پر بھی تھی جو انگریز کے زمانے میں وجود میں آئی تھیں جن کا نعرہ تھا کہ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو۔ اور جن کی سوچ یہ تھی کہ مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں جو انگریز کی طرح برصغیر میں زبردستی داخل ہوئے تھے ان تنظیموں کا منشور یہ تھا کہ تمام مقامی مسلمانوں کو ہندو بننے کی دعوت دی جائے اور جو اس دعوت کو ٹھکرائے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ان تنظیموں کا طریقہ یہ تھا کہ مسلمانوں میں تصوف اور روحانیت کے نام پر شرک کو عام کیا جائے کیونکہ جب وہ قبروں پر سجدے کرنے لگ جائیں گے تو پھر انہیں بتوں کے سامنے جھکنے سے بھی کوئی عار نہیں ہوگی۔ اسی طرح مسلمانوں میں شراب عام کی جائے تاکہ نشے کی لت میں پڑ کر وہ اسلام سے دور ہوجائیں۔ تو اس قسم کے خوفناک عزائم رکھنے والی تنظیموں کی موجودگی میں متحدہ ملک کی بات کرنا مسلمانوں کی آئندہ نسل کی تباہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے ملتے جلتے دلائل یہ حضرات اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے تھے۔
علمائے حق کی دوسری رائے
علمائے کرام کی دوسری جماعت کا موقف یہ تھا کہ انگریز کے برصغیر چھوڑنے کے بعد برصغیر کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے ان حضرات کا یہ فرمانا تھا کہ اگر مسلمانوں کے لئے الگ ملک بنایا گیا تو لازمی طور پر برصغیر کے مسلمان کئی حصوں میں تقسیم ہوکر اپنی وحدت اور قوت کھو بیٹھیں گے جبکہ ہندو متحد رہیں گے اور اس طرح مسلمانوں کوان سے ہر وقت خطرہ لگا رہے گا۔ ان حضرات کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ برصغیر کی تقسیم کی بات خود انگریزوں نے اٹھائی ہے اس کا واضح ثبوت مسلمانوں کے ان لیڈروں کی زندگی تھی جو مسلمانوں کیلئے الگ ملک کی بات کر رہے تھے یہ اکثر لیڈر انگریزوں کے تعلیم یافتہ اور ان کی تہذیب میں رنگے ہوئے تھے اور ان کی اکثریت کا اسلام سے صرف برائے نام ہی تعلق تھا ماضی میں یہی تمام لیڈر ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی اور سیکولر ازم کی چلتی پھرتی تصویر تھے مگر پھر اچانک وہ ایک الگ مسلم ملک کا مطالبہ لے کر اٹھے چنانچہ ان کا یہ پورا طرز عمل شبہات میں ڈالنے والا ہے۔ ان حضرات کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مسلمانوں کے لئے الگ ملک بن بھی گیا تو بھی وہاں اسلامی نظام حکومت نافذ نہیں ہوگا کیونکہ جو پارٹی الگ ملک کی بات کررہی ہے اس کی قیادت پر جاگیرداروں اور انگریزوں کے بہی خواہوں کا غلبہ ہے یہ لوگ جب اپنے اوپر اسلام کو نافذ نہیں کر سکے تو ملک میں کس طرح اسلام نافذ کریں گے۔ چنانچہ نئے ملک میں بھی انگریزہی کا نظام چلے گا اس لئے اس طرح کی تقسیم سے یہ بہتر ہے کہ مسلمان متحد رہیں اور انگریز کے جانے کے بعد برصغیر میں اپنی چھینی ہوئی حکومت واپس لینے کی جدوجہد کریں۔ ان حضرات کا یہ بھی فرمانا تھا کہ برصغیر تو دراصل مختلف راجواڑوں اور ریاستوں میں بٹا ہوا تھا مسلمانوں نے ہی اسے متحد کیا اور ایک حکومت کے تحت لایا اب اگر الگ ملک بنایا جاتا ہے تو مختلف راجواڑوں میں بٹے ہندوؤں کو ایک متحد ملک مل جائے گا جبکہ اس ملک کو متحد کرنے والے مسلمان ٹکڑیوں میں بٹ کر رہ جائیں گے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے دلائل یہ حضرات اپنے موقف کی حمایت میں پیش کرتے تھے۔
اختلاف کے لوازمات
اختلاف بہرحال اختلاف ہوتا ہے وہ کتنا ہی خیر خواہی اور نیک نیتی پر مبنی کیوں نہ ہو اس کے کچھ برے لوازمات ضرور ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ حضرات صحابہ کرامؓ کے مشاجرات ہی کو لے لیجئے ان کے باہمی اختلاف کے خیر خواہی اور نیک نیتی پر مبنی ہونے پر کون مسلمان شبہ کرسکتا ہے؟ لیکن مفسدین نے ان معاملات کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔ حضرات صحابہ کرام ؓ کی مقدس ہستیاں یقیناً ان تمام باتوں سے پاک ہیں جو باتیں زندیق صفت مصنفین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے معاملے پر حضرات علماء کرام کے اختلاف کو بھی بعض لوگ کفرو اسلام کا اختلاف بناکر پیش کرتے ہیں اور ان حضرات پروہ الزامات لگاتے ہیں جن سے یہ حضرات بالکل پاک اور بری تھے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو حضرات علماء کرام کے اس اختلاف سے بہرحال فائدہ ہی پہنچا ہے۔ آج ہندوستان کے مسلمان ہندوؤں کو یہ منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے برصغیر کی تقسیم کی مخالفت کی تھی چنانچہ انہیں اکابر اور ان کے جانشینوں کے سیاسی موقف کی وجہ سے آج ہندوستان ایک مکمل ہندو ملک کہلانے کی بجائے (نام کا ہی) سیکولر ملک کہلاتا ہے جبکہ پاکستان کے دین دار طبقے بھی فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے اکابر کی حمایت اور جدوجہد نہ ہوتی تو مسلمان کبھی بھی مسلم لیگ کی قیادت پر اعتماد نہ کرتے آج انہیں اکابر اور ان کے جانشینوں کے سیاسی موقف کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کے جاگیردار اور بددین حکمران باوجود شدید خواہش کے پاکستان کو مکمل سیکولر ملک نہیں بنا سکے بلکہ انہیں بعض اسلامی قوانین کو (طوعاو کرھا) پاکستان کے آئین کا حصہ بنانا پڑا ہے۔
دراصل ملک تقسیم ہونا تھا سووہ ہوگیا لیکن انگریز اور ہندو جو کچھ چاہتے تھے وہ سب نہیں ہوا پاکستان بھی مکمل طور پر جاگیرداروں کی جائیداد اور انگریز کا مستقل اڈہ نہ بن سکا اور پاکستان کی طاقت کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی یک گونہ تحفظ مل گیا۔ یہ تو ہندو کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے ملک کو سیکولر آئین دیا وگرنہ اگروہ ہندوستان کو خالص ہندو ملک بناتا تو معلوم نہیں ہندوستان کب کا بکھر گیا ہوتا۔ یہ ان حضرات اکابر کی جدوجہد تھی کہ انگریز اور ہندو مسلمانوں پر وہ آخری وار نہ کرسکے جس کی وہ سالہا سال سے تیاری کررہے تھے یہ تو رہا اس اختلاف کا فائدہ۔ مگراختلاف کے لوازمات کے طور پر کئی ایک ناگوار معاملات بھی ابھرے بلکہ ابھارے گئے۔ اس وقت کے کئی چھوٹوں نے اپنے بڑوں سے عقیدت کا حق ادا کرنے کیلئے تہذیب و اخلاق کی تمام حدود پھلانگ کر ان اختلافات کو بیان کیا۔ حضرات علماء کرام کی پاکیزہ ہستیوں پر کیچڑ اچھالا گیا بلکہ بعض کی تو (نعوذ باللہ) ڈاڑھیاں تک نوچی گئیں۔ مشرکین اور فساق کو علماء کرام کے خلاف بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع ملا اور انہوں نے اس (بزعم خویش) سنہری موقع کو ضائع نہیں کیا۔ مسلم لیگ کے اسٹیج سے حضرت مدنی ؒ اور ان کے رفقاء کو ہندوؤں کا ایجنٹ کہہ کر کیچڑ اچھالی جاتی تھی تو کانگریس کے اسٹیج سے حضرت تھانوی ؒ اور ان کے رفقاء کو انگریز کا غلام کہہ کر مطعون کیا جاتا تھا۔ میرے خیال میں برصغیر میں علماء کرام کی کھلم کھلا تذلیل اور تحقیر کی بدترین بدعت اسی دور سے شروع ہوئی اور آج تک آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ چونکہ اس وقت ماحول میں اندھکار تھا اور عوام جذبات سے پھٹے جا رہے تھے اس لئے علماء کرام کیلئے وہ نازیبا الفاظ آسانی سے ادا کئے اور برداشت کئے جا رہے تھے جو الفاظ انگریز بھی اپنے پورے دور اقتدار میں مسلمان عوام کے خوف سے اپنی زبان پر نہ لاسکا تھا۔ مگر حضرات علماء کرام جان کی طرح اپنی عزت و ناموس کی بھی پرواہ کئے بغیر میدان عمل میں ڈٹے رہے یہاں تک کہ ۱۴! اگست ۱۹۴۷ء کا دن آپہنچا جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا اور اگلے دن ۱۵! اگست کو ہندوستان نے سابق انگریز وائسرائے کی قیادت میں آزادی کا اعلان کردیا۔ تاریخ کا سرخ قلم تیزی سے لہو کی دھاریں چھوڑ نے لگا۔ تقسیم کے وقت پاکستان کے کئی حصے ہندوستان کو دے دیئے گئے اور پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرکے پاکستان کو مستقل غیر مستحکم رکھنے کی تدبیر کی گئی۔ چنانچہ ایک مضبوط اور مستحکم ملک کا خواب دیکھنے والے کلیجہ تھام کر رہ گئے مگر اس سب کے باوجود سب نے ہی پاکستان کو خدائی نعمت سمجھا یہاں تک کہ وہ علماء کرام جو تقسیم کے مخالف تھے یہ کہتے سنے گئے کہ پاکستان ایک مقدس مسجد کی طرح ہے جبکہ بعض وہ اکابر جو تقسیم کے حامی تھے انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ جینے مرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ملک جو انہوں نے اپنے خون کی دھاروں سے سنوارا تھا ان کے استقبال کو ترستا رہا۔ ان حالات کو دیکھ کر مورخ کا قلم جھک گیا اور اسے لکھنا پڑا کہ واقعی یہ دیوانے اپنے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمانوں کیلئے جدوجہد کررہے تھے اور ان کا اختلاف بھی مسلمانوں ہی کی فلاح کے لئے تھا۔
ا
یک بھیانک غلطی کی تصحیح
حضرات علماء کرام کا یہ اختلاف صرف اس وقت کے حالات کا وقتی نتیجہ تھا۔ اس اختلاف کی نہ تو کوئی مستقل بنیاد تھی اور نہ ہمیشہ رہنے والی وجوہات۔ مفسدین نے اگرچہ اس اختلاف کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا مگر ان اکابر کا ایک دوسرے سے اخلاقی اور روحانی تعلق اختلاف کے دوران بھی مثالی رہا۔ جبکہ بعد میں تو انہوں نے اس اختلاف کو یکسر فراموش کردیا وہ خود کو ایک ایسے گھرکا مکین سمجھتے تھے کہ جس گھر میں دشمن نے آگ لگادی تھی گھر والوں میں اس آگ کے بجھانے کے طریقہ کار میں اختلاف ہوگیا تھا مگر جب آگ بجھ گئی تو وہ پھر اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کو اسی طرح بجھا دیا جس طرح انہوں نے آگ کو بجھایا تھا۔ یاد رکھئے! اکابر کا وہ اختلاف وقتی حالات کا نتیجہ تھا اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اختلاف کو اب بھلا دیا جائے اور اسے علماء کرام کی مستقل تقسیم کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔
اسی طرح یہ بھی بڑی غلطی ہوگی کہ ہم خیال کرلیں کہ حضرت مدنیؒ کی سیاسی رائے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو تسلیم ہی نہ کریں اور نہ اس سے محبت رکھیں اور اسے ہمیشہ (نعوذ باللہ) ناجائز اولاد کی طرح سمجھتے رہیں۔ اور کانگریس کی وہ باتیں دہراتے رہیں جو پچاس سال پہلے بولی جاتی تھیں یا ہندوستان کے مسلمان یہ سمجھیں کہ چونکہ پاکستان والوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا تھا اور ہمارے اکابر کا کانگریس سے سیاسی اتحاد تھا اس لئے ہم مشرکوں کے ساتھ دین کا سودا کرلیں اور حالات کو بدلنے کی بجائے ہم خود حالات میں ڈھلتے جائیں اور ہندوستان سے اپنی وفاداری دکھانے کیلئے ہندو تہذیب کو اپناتے جائیں۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ جس پاکستانی یا ہندوستانی نے اس سوچ کو اپنایا اس نے بڑی فاش غلطی کی اور اس نے نہ تو حضرت مدنی ؒ کی عظمت کو سمجھا اور نہ ان کی سیاسی رائے کو۔ اسی طرح یہ بھی بڑی غلطی ہوگی کہ ہم سمجھ لیں کہ حضرت تھانوی ؒ کی سیاسی رائے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم پاکستان بننے ہی کو اپنی منزل سمجھ لیں اور یہاں کی حکومت بددین جاگیرداروں کے حوالے کرکے خود امن کی فاختائیں بن کر گھونسلوں میں بیٹھ جائیں۔ حضرت اور ان کے ہم فکر علماء کرام ایک اسلامی ملک کا قیام چاہتے تھے اس لئے اس ملک کو اسلامی بنانے کی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی اسی طرح اگرکوئی سمجھ لے کہ حضرت تھانوی ؒ نے ہمیں پاکستان ہی میں محدود کردیا ہے اور ان کی نظر میں ہندوستان کے مسلمان ایک عضو معطل تھے اس لئے ہم پاکستان میں مطمئن بیٹھے رہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے دست کش ہوجائیں تو یہ بھی بڑی غلطی ہوگی۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں جس نے اس سوچ کو اپنایا اس نے نہ تو حضرت تھانویؒ کی عظمت کو سمجھا اور نہ ان کی سیاسی رائے کو۔
اصل بات کیا تھی
اصل بات یہ ہے کہ یہ تمام اکابر حضرات اپنے وقت کے صاحب شرع اور صاحب طریقت بزرگ تھے اور یہ سب کے سب سربکف جانباز مجاہد بھی تھے۔ ان کے سامنے اسلام کا یہ حکم موجود تھا کہ زمین کے جس خطے پر مسلمانوں نے حکومت کی ہو پھر اس خطے پر کفارنے قبضہ کرلیا ہوتو مسلمانوں پر اس خطے کو آزاد کرانا فرض ہے۔ یہ بات مکمل یقین سے کہی جاسکتی تھی کہ ان تمام اکابر کے ذہن میں اسلام کے اس فریضے کی ادائیگی پہلا اور آخری مقصد تھا۔ البتہ حضرت تھانویؒ اور ان کے ہم فکر اکابر پہلے پاکستان کی شکل میں ایک دارالاسلام بطور بیس کیمپ بنانا چاہتے تھے تاکہ مسلمان ہندوؤں سے الگ رہ کر کھل کر جہاد کی تیاری کرسکیں۔ جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کیلئے مدینہ منورہ کو بیس کیمپ بناکر اس میں جنگی تیاری فرمائی تھی جبکہ حضرت مدنی ؒ اور ان کے ہم فکر اکابر کی رائے یہ تھی کہ سرحد ، بلوچستان ، مغربی بنگال اور مغربی پنجاب کے جن خطوں پر پاکستان مشتمل ہو گا یہ خطے تو ویسے ہی پاکستان ہیں کیونکہ وہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے۔ ان علاقوں سے افغانستان کی مدد لے کر برصغیر پر مسلمان باآسانی اقتدار حاصل کرسکتے ہیں لیکن اگر الگ ملک بن گیا تو وہاں کے جاگیردار حکمران کبھی بھی ہندوستان کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے بلکہ جہاد کے رستے میں رکاوٹ بنیں گے اور اس طرح سے مسلمان ہمیشہ کیلئے تقسیم ہوجائیں گے۔ اکابر حضرات کی یہ رائے جلسوں اور اسٹیجوں پر بیان نہیں کی جارہی تھی مگر حقیقت میں وہ اسی نقطے پر سوچ رہے تھے ان کا ماضی اور حال ان کی اس سوچ کا گواہ تھا اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ ان میں سے کونسی رائے نفس پرستی ، ہندو پرستی یا انگریز پرستی پر مبنی ہے کیا لوگ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ حضرت تھانویؒ ہندوستان کے مسلمانوں کے امیر جہاد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی ؒ کے جانشین تھے اور اس خانقاہ کو چلا رہے تھے جہاں سے انگریز کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تھا کیا یہ بات کسی سے مخفی ہے کہ حضرت تھانویؒ کے خلفاء کرام باقاعدہ جہاد کی تربیت لیتے اور دیتے تھے۔ کیا لوگ بھول گئے ہیں کہ حضرت مدنی ؒ تحریک ریشمی رومال میں (بقول انگریز) لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھے اور انگریزی دستاویزات میں ان کا تعارف ان الفاظ میں مرقوم ہے کہ ’’مولوی حسین احمد لوگوں کو قرآن کے ذریعے جہاد پر بھڑکاتا ہے‘‘ دراصل بدقسمت ہیں وہ لوگ جو ان اکابر کے ان حالات کو بھول کر کانگریس کے مشرک لیڈروں اور مسلم لیگ کے بددین لیڈروں کی بکواسات اور الزامات میں ان اکابر کو تولتے ہیں اور ان دونوں اکابر کو دودھڑے سمجھ کر کسی ایک دھڑے میں خود کو شامل سمجھ کر علماء حق کو تقسیم کرنے کا جرم کرتے ہیں۔
ایک وضاحت

اگرچہ اس اختلاف میں اس وقت کے تمام اکابر شریک تھے لیکن عمومی طور پر یہ اختلاف برصغیر کے اہل حق کی دو عظیم شخصیتوں حضرت مدنی ؒ اور حضرت تھانویؒ کے اسمائے گرامی کی طرف منسوب ہوکر رہ گیا ہے اس لئے ہمیں بھی مجبوراً اسی اصطلاح کو باربار استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔










 

 

علمائے کرام اور طلبہ کے تین طبقے

جن اکابر کا باہمی اختلاف ہوا تھا وہ زندگی بھر تو ایک دوسرے کی مدح سرائی اور تعظیم کرتے رہے لیکن حالات کی ستم ظریفی نے ان کے بعد کے اہل حق کو اس اختلاف کی بابت تین ذہنوں یایوں کہیے تین طبقوں میں بانٹ دیا۔
پہلا طبقہ
پہلا طبقہ تو ان خوش قسمت حضرات کا ہے جو اپنے اکابر کے صحیح وارث اور جانشین ہیں ان حضرات کے قلوب میں دونوں طرف کے اکابر کی عظمت اور محبت کے دیپ روشن ہیں ان کی رائے میں اکابر کا یہ اختلاف بھی ان کی اعلیٰ فراست کی علامت ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ اختلاف ایک وقتی ضرورت کا نتیجہ تھا اس لئے اسے اب ذہن میں رکھ کر کسی طرف کے اکابر کی تنقیص ایک بدترین غلطی ہوگی۔ یہ حضرات جب حضرت تھانویؒ کا نام لیتے ہیں تو ایک روحانی لذت محسوس کرتے ہیں اور جب ان کی زبانوں پر حضرت مدنی ؒ کا نام آتا ہے تو وہ ایک خاص مٹھاس محسوس کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کی گالیاں نہیں بلکہ حضرت مدنی ؒ اور حضرت تھانوی ؒ کی زندگی کے وہ پہلو ہیں جن پر کوئی دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا وہ ہر طرف کے اکابر کو دودھ اور شہد کی ایسی نہریں سمجھتے ہیں جن میں سے کسی سے محرومی بھی انہیں گوارہ نہیں ہے۔
دوسرا طبقہ
دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے بظاہر کسی ایک طرف کے اکابر کی عقیدت کو گلے کا ایسا طوق سمجھ رکھا ہے جو انہیں دوسری طرف دیکھنے ہی نہیں دیتا۔ بلکہ یہ لوگ تو نعوذ باللہ ان باتوں کو بھی بلا دھڑک دہرا دیتے ہیں جو کانگریس کے مشر ک اور مسلم لیگ کے بددین لیڈران اکابر کے خلاف بولا کرتے تھے۔ آپ کو پاکستان میں ایسے لوگ اب بھی نظر آئیں گے جو ابھی تک پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ حضرت مدنی ؒ تقسیم کے مخالف تھے اور آپ کو ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جو حضرت مدنی ؒ کو محض ایک ایسے سیاسی شخص کے طورپر پیش کرتے ہیں جو ہندوؤں کے ساتھ ایک اسٹیج پر بیٹھتے تھے۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کو دیکھ کر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہم ان کی اس رائے سے بری ہیں‘‘ بلکہ کچھ لوگ تو ایسے بھی نظر آتے ہیں جو نہ مدارس کو ضروری سمجھتے ہیں اور نہ انہیں خانقاہوں سے کچھ سروکار ہے علم سے ان کی نسبت صرف نام کی حد تک ہے اور وہ دن رات جمہوریت کے لئے جوتیاں چٹخاتے نظر آتے ہیں اور خود کو نعوذ باللہ مدنی سیاست کا علمبردار سمجھتے ہیں اسی طرح آپ کو وہ لوگ بھی نظر آئیں گے جن کے نزدیک سیاست ایک شجر ممنوعہ ہے اور علم صرف علم طریقت ہے یہ لوگ کسی خانقاہ سے کسی طرح خلافت لے کر ایک جدید خانقاہ ڈال لیتے ہیں حالانکہ خود ان کے اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن اور بے پردگی عام ہوتی ہے اور ان کے صاحبزادے کسی یونیورسٹی یا کالج کے طالب علم ہوتے ہیں ہفتے بھر میں ایک مجلس انہیں شریعت کے بہت سے احکامات سے بالاتر کردیتی ہے اور یہ لوگ خود کو (نعوذ باللہ) حضرت تھانوی ؒ کا حقیقی جانشین سمجھتے ہیں۔ ماضی کا یہ سیاسی اختلاف مدارس کے طلبہ کی شکل میں بھی موجودہے پاکستان اور ہندوستان میں تو معاملہ صرف تو، تو میں میں تک محدود رہتا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں مدنی تھانوی جھگڑے میں ایک دوسرے کے سر تک پھاڑ دیئے جاتے ہیں۔ کاش یہ لوگ اکابر کی عظمت کو سمجھیں اور انہیں دھڑوں میں تقسیم کرنے کی بجائے ان کی علمی ، روحانی اور جہادی وراثت کو سنبھالیں اور اپنے گلے سے اس طوق کو اتار کر دوسری طرف بھی دیکھیں اس طرح یہ لوگ دین کا زیادہ کام کرسکیں گے اور قیامت کے دن اپنے اکابر کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہوں گے۔
تیسرا طبقہ

ان افراد کا ہے جو دونوں طرف کے اکابر کی عظمت شان کے معترف ہیں اور تمام اکابر سے بھرپور عقیدت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے اردگرد کے ماحول کی وجہ سے ایک غیر محسوس خول میں بند ہیں۔ اسی غیر محسوس خول کی وجہ سے ان کا جھکاؤ ایک ہی طرف رہتا ہے اور وہ دوسری طرف کے اکابر سے اس طرح کھل کر استفادہ نہیں کرسکتے جس طرح کہ انہیں کرنا چاہئے۔ یہ لوگ اگرچہ دھڑے بندی میں مبتلا نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی زبانیں اکابر کی تنقیص سے آلودہ ہوئی ہیں لیکن اپنی طبیعت اور مزاج کی گھٹن کی وجہ سے ان کا افادہ اور استفادہ دونوں محدود رہتے ہیں اور جس کھلے میدان میں انہیں کام کرنا چاہئے تھا یا جس کھلے گھاٹ سے انہیں مستفید ہونا چاہئے تھا اس سے وہ محروم رہتے ہیں۔ چونکہ میری ان گزارشات کے اصل مخاطب طلبہ کرام ہیں اس لئے ایک طالب علم کے طور پر میں ان کی خدمت میں اپنی مثال پیش کرتا ہوں۔ میں خود طالب علمی کے اکثر دور میں اسی تیسرے طبقے کا فرد رہا ہوں چنانچہ غیر محسوس طریقے سے اپنے آپ کو اکابر کے ایک طبقے سے منسلک سمجھتا تھا اسی لئے میں نے اس دوران زیادہ استفادہ اسی طبقے کے اکابر کی کتب سے کیا اور ان کی سیاسی رائے ہی کو حرف آخر سمجھتا رہا۔ حالانکہ دوسری طرف کے اکابر کی عظمت سے بھی دل سرشار تھا مگر ایک کھٹک اور ایک غیر محسوس پردہ ہر وقت مسلط رہتا تھا جس کی وجہ سے اس پورے دور میں دوسری طرف کے اکابر اور ان کی کتب سے وہ استفادہ نہ کرسکا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور دوسری طرف کے بعض اکابر کا قرب اتفاقاً نصیب ہوا اور یکایک وہ پردہ اور وہ کھٹک دور ہو گئی اور مجھے یوں لگا کہ مجھے ایک عظیم خزانہ مل گیا ہے اور پھر یکے بعد دیگرے ایسے افراد ملتے چلے گئے اور میرا دل تمام اکابر کی بے تکلف محبت سے سرشار ہوتا چلا گیا اور یہ کیفیت اس وقت عروج کو جاپہنچی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ہندوستان کے سفر کی توفیق دی۔ میں ہندوستان پہنچتے ہی دارالعلوم دیوبند کی طرف یوں دوڑا جس طرح بچہ ماں کی گود کی طرف دوڑتا ہے علم کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا دارالعلوم کی مہمان نواز انتظامیہ نے بڑے مہمان خانے کا ایک کمرہ عنایت فرمایا اور جیسے ہی رات کے کچھ پہر گزرے ان طلبہ کرام کا ایک تانتا بندھ گیا جو ملاقات کیلئے آ رہے تھے ان کی آنکھوں میں محبت کے آنسو جھلملاتے ہوئے میں نے خود دیکھے اور بے خود ہوگیا۔ ان طلبہ نے (جن میں بعض میرے ہم عمر تھے بعض مجھ سے کچھ بڑے اور بعض کچھ چھوٹے) مجھ جیسے ناکارہ طالب علم کے ساتھ جس طرح سے اپنی محبت اور عقیدت کا خاموش مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی طالب علم ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جس کے دل میں حضرت تھانویؒ اور حضرت مدنیؒ اور ان دونوں کے ہم فکر اکابر کے لئے محبت نہیں ہوگی۔ فجر کی نماز پڑھ کر ہم سب رفقاء سفردارالعلوم دیوبند سے ملحق اس دبستان میں پہنچے جہاں آسمان کے کئی تارے خاک کی چادر لئے ٹھاٹھ سے محو خواب تھے۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی کچی قبریں تھیں برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا درخشندہ ترین باب ان قبروں میں مدفون تھا۔ یوں لگتا ہے نور کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے لے کر حضرت مدنی ؒ تک اکابر کے روضوں کی حاضری کا شرف ملا قبروں کے سرہانے لگے کتبے ان اکابر کے ناموں پر فخر بھی کر رہے تھے اور تعارف کا حق ادا نہ کرسکنے پر شرم سے زمین میں گڑے جا رہے تھے۔ دل کی کیفیت بیان سے باہر تھی چونکہ آگے کا سفر لمبا تھا اس لئے بادل نخواستہ واپسی کا ارادہ کیا دل سے بے ساختہ دعائیں نکلیں جن میں سے ایک دعا یہ بھی تھی کہ رب العالمین ان اکابر کی سچی نسبت عطا فرما۔ ہم جب بجھے ، بجھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے اس ٹھنڈے قبرستان سے باہر نکلے تو سورج خوب نکل چکا تھا اور باہر کی دنیا دھوپ سے جل رہی تھی دیوبند سے ہم تھانہ بھون کی طرف روانہ ہوئے سب سے پہلے خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون کی زیارت کا شرف نصیب ہوا مسجد میں قرآن مجید کا چھوٹا سا مکتب جاری تھا بچے جھوم جھوم کر قرآن یاد کررہے تھے مسجد کی ایک طرف وہ چھوٹے چھوٹے کمرے تھے جہاں ایک زمانے میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ حضرت مولانا علامہ خیر محمد جالندھری ؒ حضرت مولانا مفتی محمد حسن ؒ حضرت قاری محمد طیب صاحب ؒ حضرت مولانا عبدالماجد دریا آبادی ؒ جیسے اصحاب علم اصلاح نفس کیلئے آکر ٹھہرتے تھے۔ حضرت تھانوی ؒ کے دربار کے یہ رتن جیل کی کوٹھڑیوں سے بھی تنگ ان کمروں میں سلوک و احسان کی منازل طے کرتے تھے خانقاہ کے منتظم صاحب نے وہ کمرہ دکھایا جہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نور اللہ مرقدہ خلوت و عبادت فرمایا کرتے تھے کمرے کے دروازے اور چوکھٹ پر اس آگ کے آثار اب تک نظر آرہے تھے جو انگریز نے اس مرکز جہاد و روحانیت کو جلانے کے لئے لگائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور حضرت کی اس خلوت گاہ میں نماز اور دعا کا موقع ملا۔ یہاں بھی دارالعلوم دیوبند جیسی اپنائیت محسوس ہو رہی تھی اور میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کسی خاص چار دیواری کا نام نہیں بلکہ وہ ہر اس جگہ کا نام ہے جہاں اہل حق دین حق کی حفاظت کے لئے محنت فرماتے ہیں۔ ہم نے خانقاہ کے منتظم صاحب سے حضرت اقدس تھانوی ؒ کے مزار پر حاضری کی خواہش ظاہر کی انہوں نے ایک رہنما ساتھ کردیا جس کی معیت میں حضرت تھانوی ؒ کے مزار پر حاضر ہوئے۔ اللہ اکبر جلال و جمال کا عجیب امتزاج تھا۔ زمین سے صرف ایک بالشت بلند کچی قبر پر درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں تھی ساتھ ہی حضرت حافظ ضامن شہیدؒ کی قبر تھی۔ ایک مجاہد کے لئے کسی شہید کے مزار پر حاضری ایک جذباتی معاملہ ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت اور دیگر اکابر کی قبور پر ایک پر نور بزرگ شخص سے بھی ملاقات ہوئی غالباً وہ رضاکارانہ طورپر قبور کی دیکھ بھال کیلئے خود کو وقف کئے ہوئے تھے۔ وہ میرے سب رفقاء سے ملے لیکن جب میرا نمبر آیا تو وہ گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے وہ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر ان کی آواز سسکیوں اور ہچکیوں میں اس قدر دب گئی تھی کہ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا وہ کافی دیر تک بغل گیر رہے اور پھر ہاتھ پکڑ کر روتے رہے۔ ہم جب وہاں سے واپس ہوئے تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بزرگ میری طرف دیکھ کر مسلسل رو رہے تھے معلوم نہیں وہ ان آنسوؤں سے کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔ گرفتاری کے ایک سال بعد جب میرا گھر رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ میری گرفتاری کی خبر سن کر میرے کئی محبوب اکابر بھی روپڑے تھے۔ یہ بات معلوم ہونے پر میں بھی اپنے آنسو نہ روک سکا اور میں نے سوچا کہ میرے اکابر کتنے شفیق ہیں اور کتنے ذرہ نواز ہیں اے میرے طالب علم بھائیو! کیا ہمارے لئے جائز بنتا ہے کہ ہم ان اکابر کو دھڑوں میں تقسیم کریں یا ان میں سے کسی کی شان میں دانستہ یا نادانستہ کوئی گستاخی کریں ۔
اللھم انا نعوذبک من ان نکون من الجاھلین
(ترجمہ) اے اللہ ہم آپ کی پناہ پکڑتے ہیں کہ ہم جاہلوں میں سے ہوجائیں) آزادی کے موضوع پر لکھے جانے والے اس مضمون میں دارالعلوم دیوبند اور خانقاہ تھانہ بھون کے سفرنامے کا مختصر احوال لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آگے کے مضمون میں ہم آزادی کی تکمیل کیلئے اپنے اکابر کے اختیار فرمودہ طریقہ کار کی بات کریں گے تو اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے اکابر سے مکمل طور پر جڑے ہوئے ہوں اور ان کے بارے میں کسی طرح کی دھڑے بندی کا شکار نہ ہوں دارالعلوم دیوبند کے سفر کے دوران ہی میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ انشاء اللہ اپنے طالب علم بھائیوں کو اپنے تمام اکابر سے جڑنے کی گزارش پیش کروں گا۔ تاکہ جو پہلے سے جڑے ہوئے ہیں وہ اور مضبوط ہوجائیں اور جو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں وہ دھڑے بندی کا طوق توڑ ڈالیں اور جو غیر محسوس خول میں بیٹھے ہیں وہ بھی اس خول سے باہر نکل کر اپنے اکابر سے خوب خوب فیض حاصل کریں اور اپنے اکابر کے صحیح جانشین بن کر ان کے مبارک کام کو آگے بڑھائیں۔
ا
کابر کے اصل جانشین کون ہیں
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ شاطر انگریز نے برصغیر کے مسلمانوں کی تباہی اور انہیں اسلام و جہاد سے دور رکھنے کے لئے ان پر یہ تین سانپ مسلط کئے تھے (۱) مذہبی فرقہ واریت (۲) لسانیت اور علاقائیت پر مبنی جاگیردارانہ نظام (۳) انگریزی نظام تعلیم۔ ہمارے اکابر (نور اللہ مرقدھم) انگریز کے ان اقدامات سے کبھی بھی غافل نہیں رہے۔ انہوں نے انگریز کی ہر تدبیر سے ٹکرلی اور اس کی ہر سازش کے مقابلے میں دفاعی انتظامات فرمائے اکابر کے ان انتظامات کا مقصد یہی تھا کہ مسلمان شعوری اور عملی طور پر مسلمان رہیں اور دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کریں اور اس دعوت کو ٹھکرانے والوں سے اور مسلمانوں پر جارحیت کرنے والوں سے جہاد کریں۔ فروعی مسائل پر آپس میں نہ لڑیں اور اسلام کو شرک و بدعت سے آلودہ نہ کریں اور دنیا داری میں غرق ہوکر دین کو نہ بھلا بیٹھیں حضرات اکابر نے ان مقاصد کے لئے کئی مستقل اور کئی عارضی اقدامات مختلف اوقات میں فرمائے ان میں سے تین مستقل بنیادوں پر کئے گئے اقدامات کا ہم یہاں خاص طورپر تذکرہ کرتے ہیں کیونکہ اگر ان اقدامات کو اکابر کے طریقے پر جاری رکھا گیا اور ان میں ترقی کی گئی تو پھر ہماری آزادی مکمل ہوجائے گی اور ہم انگریز کے مسلط کردہ سانپوں کو ختم کرکے دعوت و جہاد کا علم پھر سے دنیا پر بلند کرسکیں گے۔





 

انگریز کے مسلط کردہ تین سانپوں

کے مقابلے میں علماء کرام  کے تین انتظامات

وہ تین اقدامات یہ ہیں: (۱) خالص دینی مدارس کا قیام (۲) توحید پر مبنی صاف ستھرا خانقاہی نظام (۳) دعوت و تبلیغ یا تبلیغی جماعت کا کام۔ اب جو لوگ بھی اکابر کے شروع کئے ان کاموں میں اکابر ہی کے طریقے پر جتے ہوئے ہیں ان کو ہم اپنے اکابر کا صحیح جانشین مانتے ہیں۔ آیئے اکابر کے ان انتظامات کی ترتیب اور ان کے اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پہلا انتظام
دینی مدارس کا قیام

انگریز نے لارڈ میکاؤلے کے مرتب کردہ نظام تعلیم کو رائج کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب سارے برصغیر کے تعلیم یافتہ لوگ قلبی اور تہذیبی اعتبار سے اسلام سے بیزار اور انگریزی تہذیب کے دلدادہ اور انگریز کے بہی خواہ ہوں گے۔ یہ لوگ دین سے غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے کبھی بھی جہاد کے لئے کھڑے نہیں ہوں گے اور دنیا داری میں ایک دوسرے سے سبقت کے شوق میں دین کو بھول جائیں گے۔ اس خطرناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے حضرات اکابر نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوکر خوب استخارے کئے اور آپس میں طویل استشارے فرمائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی اور انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے قیام کا ارادہ فرمایا۔ انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے ایک استاذ اور ایک شاگرد سے تحریک مدارس کا آغاز ہوا، ابتدا میں تو انگریزی نظام تعلیم کے طوفان کے سامنے یہ بند بہت معمولی اور کمزور نظر آرہا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس تحریک کا نور پھیلتا ہی چلا گیا۔ اس تحریک کے مقاصد میں سے یہ تھا کہ مسلمانوں کیلئے ایسی دینی قیادت فراہم کی جائے جو خود خالص اسلامی ہو اور اسلام کا مکمل علم رکھنے والے ان افراد پر مشمل ہو جن کی پوری تربیت خالص اسلامی ماحول میں ہوئی ہو۔ اس تحریک کا یہ بھی مقصد تھا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے کلام کو بغیر کسی تحریف و تبدیل کے مسلمانوں کو پڑھایا جائے تاکہ وہ زمانے کے تقاضوں سے مجبور ہوکر دین کو نہ بدلیں بلکہ زمانے کو دین کے مطابق ڈھالنے کا عزم رکھنے والے بنیں اور ان مدارس سے ایسی نسل تیار ہوکر نکلے جس کی تمام تر وفاداریاں صرف اور صرف اسلام کیلئے وقف ہوں یہ افراد رنگ ، قوم اور وطن سے بالاتر ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے محافظ بنیں اور اس خالص اسلامی نسل کے ہر فرد کے دل میں اسلام کے ایک (ظاہری طور پر) معمولی سے معمولی حکم کی بھی اس سے زیادہ قدر ہو جتنی ایک انگریز جج کے دل میں برطانیہ کے آئین کی ہوتی ہے۔
چونکہ فرقہ واریت اور بدعات کم علمی اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اس لئے مدارس کے ذریعے سے کم علمی اور جہالت کو دور کیا جائے اسی طرح اس تحریک کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انگریزوں اور ہندوؤں نے پورے برصغیر کا ماحول بگاڑ کررکھ دیا ہے۔ اس لئے کچھ مسلمانوں کی تربیت مدارس اور مساجد کے پاکیزہ ماحول میں کی جائے تاکہ اسلام کا ہر حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام سنتیں ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن جائیں اور یہ اللہ کے رنگ میں ایسے رنگے جائیں کہ یورپ کی فریبی رنگینیاں اور ہندی مشرک کی غلاظت ان پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ پھر اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے یہ اہل علم ، باعمل افراد تمام مسلمانوں کی دینی ، روحانی اور سیاسی قیادت کریں اور انہیں فریضہ جہاد پر کھڑا کرکے کامیابی اور عظمت کے راستے پر گامزن کریں۔ ان عظیم مقاصد اور اس نیک سوچ کو لے کر اکابر نے مدارس کا آغاز فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اتنی بھرپور نصرت فرمائی کہ ان کا خواب پورا ہوا اور وہ انگریز جو اپنا نظام تعلیم دیکر یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اب اسے کچھ ہی عرصے میں برصغیر میں کوئی ایک بھی پورا اور مکمل مسلمان نظر نہیں آئے گا اس وقت افسوس اور حسرت سے اپنی انگلیاں کاٹتا نظر آیا جب ان مدارس سے نکلے ہوئے پورے مسلمان مکمل اسلامی لباس میں یورپ کے ایئرپورٹوں پر اذانیں دیتے نظر آئے۔ آج ان مدارس کی شاخیں ایک طرف امریکہ اور افریقہ کے دور دراز جزیروں اور وادیوں میں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف انہیں مدارس کے طلبہ افغانستان میں خلافت راشدہ کے دور کو زندہ کئے بیٹھے ہیں اور دنیا بھر کی دفاعی ٹیکنالوجی کے دانت کھٹے کررہے ہیں۔ آپ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک نظر پھیلایئے آپ کو ان مدارس کے فیض یافتہ افراد دن رات ایک کرکے دنیا سے بے غرض ہوکر اسلام اور مسلمانوں کی دینی خدمت کرتے نظر آئیں گے۔ ان سب کی سوچ ان کی فکر ان کا انداز اور یہاں تک کہ ان کا لباس بھی ایک جیسا ہے۔ آپ انہیں صوبہ بلوچستان کے کسی دور افتادہ صحرا میں دیکھیں یا برطانیہ کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر آپ سمجھیں گے کہ یہ ایک ماں کی گود میں پلنے والے دو بھائی ہیں حالانکہ ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ حقیقت میں یہ دینی مدارس انگریزی نظام تعلیم کی فرعونیت کے مقابلے میں عصائے موسیٰ بن کر امت مسلمہ کا ایمان بچا رہے ہیں اور تیزی سے تباہی کی طرف گرنے والے اس دور میں مسلمانوں کا یہ سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ آج اگر برصغیر میں کہیں بھی کوئی خیر نظر آتی ہے۔ تو اس کے پیچھے آپ کو لازماً ان مدارس کا فیض کار فرما نظر آئے گا۔ اس لئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اب بھی اگر دنیا میں کوئی خیر اٹھے گی تو انشاء اللہ ان ہی مدارس سے اٹھے گی۔ افغانستان کی سرزمین نے کئی مجاہد لیڈر دیکھے مگر ان کی روسی۔ فرانسیسی اور امریکی ڈگریوں نے بالآخر اثر دکھایا اور وہ نہ تو بین الاقوامی دباؤ کا مقابلہ کرسکے اور نہ اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکے مگر پھر ان مدارس سے نکلنے والے (مکمل مسلمان) میدان میں آئے اور انہوں نے اسلام دشمنی کے بین الاقوامی اداروں میں صف ماتم بچھا کر رکھ دی۔ اب تو تمام اسلام دشمن طاقتوں کا اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ جب تک ان مدارس کو مکمل بند نہیں کیا جاتا یا ان کے مروجہ نظام کو نہیں بگاڑا جاتا اس وقت تک بنیاد پرستی یعنی خالص اسلام کی یلغار کو نہیں روکا جاسکتا۔ اسی لئے ترکی میں مدارس کے خلاف کام شروع ہوچکا ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ مدارس حکمرانوں کو کھٹک رہے ہیں اور پاکستان کے حکمران بھی ان مدارس کو بند کرنے کی بات کررہے ہیں۔
حکمرانوں کو ایک مخلصانہ مشورہ
ہم مسلم حکمرانوں کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان مدارس کے خلاف ایسی باتیں نہ کہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں۔ ان مدارس نے اب تک کروڑوں مسلمانوں کا ایمان بچایا ہے اب اگر خدانخواستہ ان مدارس کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے بھی دیکھا گیا تو انشاء اللہ لاکھوں مسلمان طوفان کی طرح اٹھیں گے اور مدارس کے خلاف باتیں کرنے والے عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ یہ مدارس ہمیں اپنے ایمان کی طرح عزیز ہیں اور ایمان کے سامنے جان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ماضی میں کئی جابر ایسی کوششیں کرچکے ہیں مگر دنیا میں ان کا منہ اور مرنے کے بعد ان کا نام ہی سیاہ ہوا ہے۔ اے حکمرانو! انسانوں سے ٹکرایا جاسکتا ہے لیکن نور کی شعاؤں سے ٹکرانے کیلئے آج تک نہ کوئی اسلحہ بنا ہے اور نہ کوئی فوج۔ یاد رکھئے ان مدارس کی چار دیواری میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کلام پڑھایا جاتا ہے اور ان مدارس کے چاروں طرف فرشتوں کا پہرہ لگا رہتا ہے۔ ان مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے زندگی سے زیادہ موت کو اور جھکنے سے زیادہ کٹنے کو عزیز رکھتے ہیں۔ آج دنیا کے تمام بڑے ظالموں کا سب سے بڑا ہتھیار اقتصادی پابندی ہے۔ آپ لوگوں نے تو انگریز کے حکم سے ہم پر سالہا سال سے یہ پابندی لگا رکھی ہے آپ لوگوں نے ملکی نظام کی تمام ملازمتیں انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کے لئے خاص کردی ہیں۔ آپ کے خزانے کا تمام فنڈ سکولوں اور کالجوں کو جاتا ہے ملک ہم مسلمانوں کا ہے لیکن اس میں نوکری اسی کو ملتی ہے جو انگریز کا سند یافتہ ہو۔ ملک کے تمام کلیدی عہدے تم نے انگریز کی بولی بولنے والوں کو دے دیئے ہیں مگر پھر بھی ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود تم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بولی سیکھنے والے ان اہل مدارس کو بھوکا نہیں مار سکے اور نہ ان کی تعداد کو کم کرسکے ہو۔ ان تمام تر پابندیوں کے باوجود ہم کوئی حاجت لے کر تمہارے دروازے پر نہیں جاتے بلکہ خود تمہیں ہمارے دروازوں پر آنا پڑتا ہے۔ کیا یہ سب دیکھ کر بھی تمہاری آنکھیں نہیں کھلتیں اور تم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان مدارس والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی غیبی طاقتیں ہیں۔ اچھا یہ بتاؤ تم کتنے مدارس گراؤ گے؟ کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہوکہ چار عمارتیں گرانے سے تم مدرسے ختم کردو گے۔ کاش کوئی تمہیں خیرات میں ہی تھوڑی سی عقل دے دیتا!
یاد رکھو اہل حق کے فرزند جہاں بیٹھتے ہیں وہاں مدرسہ کھل جاتا ہے۔ ہم آج کل انڈیا کی ایک ایسی جیل میں ہیں جہاں دشمن کے بقول پرندہ پر نہیں مارسکتا مگر الحمدللہ یہاں بھی مدرسہ کھلا ہوا ہے تفسیر ، حدیث ، فقہ ہر چیز پڑھائی جارہی ہے کئی سال سے بیڑیوں ، ہتھکڑیوں اور دن رات کے تشدد کے باوجود الحمدللہ یہ مدرسہ چل رہا ہے۔ ہماری بات اگر تمہاری سمجھ میں نہیں آتی تو سوویت یونین سے پوچھو اس نے ہر مدرسہ اور ہر مسجد گرادی تھی ہر ڈاڑھی والے کو شہید کردیا تھا اور ہر نمازی کو ختم کردیا تھا مگر آج روسی صدر کی موجودگی میں شیخ عبداللہ نوری جیسے عالم تاجکستان کے مستقبل کے حکمران کے طور پر دستخط کرتے نظر آتے ہیں دنیا حیران ہے کہ پورے سوویت یونین میں۔ ستر سال تک کوئی مدرسہ نہیں تھا تو عبداللہ نوری کہاں سے عالم بن گئے۔
اس لئے اے اہل حکومت! ہم آپ کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ اس قسم کی فضول باتیں کرنے کی بجائے تم خود انسان بننے کے لئے ان مدارس سے رہنمائی حاصل کرو تاکہ کل اللہ کے حضور انسانوں کی شکل میں حاضر ہو سکو۔ اور اپنی اولاد کو ان مدارس میں بھیج کر صحیح انسان اور سچا مسلمان بناؤ۔ اور یقین کرو آکسفورڈ میں اپنے بچوں کو پڑھا کر تم ان پر وہ ظلم ڈھا رہے ہو جس کا تمہیں کل قیامت کے دن جواب دینا پڑے گا۔ اگر تم یہ کہتے ہوکہ مدارس فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں تو یہ تمہاری غلط فہمی اور غلط معلومات کا نتیجہ ہے۔ فرقہ واریت کے تمام بڑے بت کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلے ہیں۔ مدارس تو اس وباء کے موجد نہیں بلکہ اس کا توڑ ہیں۔ اچھا یہ بتاؤ لسانی فسادات میں اب تک کتنے لوگ مرے ہیں؟ یقیناً بے شمار تو پھر تم کالج بند کیوں نہیں کرتے؟ جہاں سے لسانیت پرستوں کی قیادت اٹھی ہے۔ اچھا یہ بتاؤ۔ طلباء کی سیاسی تنظیموں نے اب تک ایک دوسرے کے کتنے آدمی مارے ہیں؟ یقیناً لاتعداد تو پھر تم ان تنظیموں کی آماجگاہ کالج بند کیوں نہیں کردیتے؟ اچھا یہ بتاؤ اب تک تم نے اغواء برائے تاوان۔ چوری، ڈاکے اور زنا کے جو مجرم پکڑے ہیں ان میں سے اکثریت کالج والوں کی ہے یا مدرسے والوں کی؟ تمہیں حق ہے کہ جس تعلیمی ادارے کے فیض یافتہ ان جرائم میں زیادہ ہوں ان اداروں کو بند کردو۔ اچھا یہ بتاؤ جاگیرداروں نے اب تک قبائلی عصبیت کے نام پر کتنے لوگ قتل کئے ہیں؟ کتنے مظلوموں کو انہوں نے اپنے خفیہ قید خانوں میں ڈال رکھا ہے؟ کتنی پاک دامن عورتیں دن رات ان کی ہوس کا شکار بنتی ہیں؟ تمہیں حق ہے کہ ان جاگیرداروں نے جن تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی ہو انہیں بند کردو۔ اچھا یہ بتاؤ؟ پاکستان کے تمام اشتہاری مجرم کس مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں یا ان کی اکثریت کس تعلیمی ادارے سے نکلی ہے؟ تم تمام ملک کے تھانوں سے تفصیلات منگوا کر آخری فیصلہ کرو اور ان اداروں کو بند کردو جہاں سے یہ مجرم نکل رہے ہیں؟ تم نے اخبار نویسوں کے کیمروں کے سامنے یہ کہہ کر مدارس کی تذلیل اور توہین کی ہے کہ ان میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ شیعہ کافر ہیں۔ ہم تم سے پوچھتے ہیں تم اپوزیشن والوں کو بے ایمان کیوں کہتے ہو؟ تم اپنے سیاسی حریفوں پر غداری کے الزامات کیوں لگاتے ہو۔ تم نے الذوالفقار کو غدار کہا اور مرتضیٰ بھٹو مارا گیا پھر تو تم ہی اس کے قاتل ہو۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ پہلے مرتضیٰ کے قتل کے جرم میں اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالو اور پھر مدارس پر زبان درازی کرو۔ خوب سن لو مدارس میں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ کون کافر ہے اور کون مسلمان۔ مدارس میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ مسلمان کیلئے کن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے چنانچہ جو بھی ان چیزوں پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیںرہتا۔ یہ سبق نہ کسی مولوی کا بنایا ہوا ہے نہ کسی مفتی کا یہ قرآن کا درس ہے کیا تم نعوذ باللہ قرآن پر پابندی لگانا چاہتے ہو۔ پھر تم نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ مدارس میں یہ سبق تو صدیوں سے پڑھایا جا رہا ہے مگر پہلے تو سنی شیعہ فسادات نہیں ہوتے تھے اب کیوں ہو رہے ہیں؟ اگر یہ فسادات مدارس نے کرائے ہوتے تو یہ صدیوں سے چل رہے ہوتے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ان فسادات میں مدارس کا کوئی ہاتھ نہیں اگر خدا تمہیں عقل اور توفیق دے تو اپنے خفیہ اداروں کو اپنے سیاسی مخالفوں کے فون ٹیپ کرانے کی بجائے ایران اور ہندوستان کی طرف متوجہ کرو تاکہ وہ اپنے کچھ ہنرمند اور سلجھے ہوئے افراد ان دونوں ملکوں میں بھیج دیں اگر تم نے ایسا کیا تو تم دو چار مہینوں میں ان ہاتھوں تک پہنچ جاؤ گے جن کی تمہیں تلاش ہے۔ کاش تم اور کچھ نہ کرتے صرف مولانا جھنگویؒ شہید کی اتنی سی بات مان لیتے کہ ان کتابوں پر پابندی لگا دیتے جو بعض مفسدین نے ایران اور ہندوستان کے اشارے پر لکھی تھیں تو آج تمہیں مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی کا گناہ نہ کرنا پڑتا۔
مدارس کے لئے تین خطرے
امید ہے کہ انشاء اللہ ایمان کے ان چراغوں کو حکمرانوں سے کوئی خطرہ لا حق نہیں ہوگا اور اگرخدانخواستہ لاحق ہوا بھی تو یہ تھوڑی سی قربانی کے بعد مدارس کی بے پناہ ترقی اور طاقت کا باعث بنے گا کیونکہ حق کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھرتا ہے اور ہمارے دین کی بنیاد تو مکی حالات ہی میں پڑی ہے۔ لیکن بعض اور امور ایسے ہیں جن کی طرف سے مدارس کوخطرہ ہوسکتا ہے یہاں ان امور میں سے صرف تین امور کو خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے تاکہ آج کے طالب علم جو کل ان مدارس کا انتظام سنبھالیں گے۔ ان خطرات سے محتاط رہیں اور اپنے اکابر کی روایات اور طرز پر چلتے ہوئے ان خطرات کا مقابلہ کریں۔
پہلا خطرہ
ان خطرات میں سے پہلا خطرہ مدارس کے مروجہ نظام کو بدل کر دینی اور عصری علوم کا اختلاط ہے یاد رہے کہ ہمارے اکابر کبھی بھی عصری علوم کے مخالف نہیں رہے اور نہ انہوں نے ان علوم کی ضرورت سے انکار فرمایا ہے بلکہ انہوں نے خود بعض عصری فنون میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل فرمائی۔ لیکن انہوں نے دینی مدارس میں ان فنون کے داخلے کی بھی بھرپور مخالفت فرمائی۔ کیونکہ آج کے زمانے میں دینی علوم کے مدارس کی تعداد عصری فنون کے اداروں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور ملکی حکومت پر دین سے بے زار طبقے کے تسلط کی وجہ سے عصری فنون کے اداروں میں دینی علوم یا تو پڑھائے ہی نہیں جاتے اور اگر پڑھائے بھی جاتے ہیں تو محض خانہ پری کیلئے۔ اس لئے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والے تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت اسلام کے بنیادی احکامات سے بھی واقف نہیں ہوتی۔ آپ کو ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے ایسے بے شمار افراد ملیں گے جنہیں صحیح طرح سے نہ تو کلمہ پڑھنا آتا ہے اور نہ وہ کلمے کے مفہوم کو سمجھتے ہیں تجوید سے قرآن پڑھنا تو بہت ہی دور کی بات ہے یہ افراد سورہ فاتحہ اور نماز کی ادائیگی کا طریقہ تک نہیں جانتے۔ حالانکہ ایک مسلمان جب تک نماز نہ پڑھے وہ حقیقت میں مسلمان ہی نہیں ہے اور ان تعلیم یافتہ افراد میں سے جو دین سے واقف ہیں وہ بھی کسی بزرگ یا عالم کی صحبت کی وجہ سے ہیں یا تبلیغی جماعت نے ان کی رہنمائی کی ہے۔ ممکن ہے لوگ کہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور آپ لوگ ابھی تک تجوید سے قرآن پڑھنے اور کلمہ یاد کرنے کی باتیں کررہے ہیں ان لوگوں کو کرخت الزامی جواب دینے کی بجائے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ دنیا کے چاند پر پہنچنے کے باوجود ابھی تک جس طرح زندہ رہنے کے لئے کھانے اور پانی کی ضرورت باقی ہے اسی طرح انسان کو انسان بنانے کے لئے نماز اور قرآن کی بھی ضرورت باقی ہے اور تاقیامت رہے گی۔ لیکن لاکھوں سکول ہزاروں کالج اور سینکڑوں یونیورسٹیاں آخر کس طرح کے تعلیم یافتہ لوگ پیدا کر رہی ہیں؟ ان میں سے ایک بڑی تعداد دین سے باغی ہوچکی ہے۔ ان میں سے اکثریت دین کی بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں رکھتی۔ ان میں سے بہت سارے خود کو تعلیم یافتہ سمجھ کر چند دینی کتابوں کا مطالعہ کرکے مستقل فتنہ بن چکے ہیں اور ہزاروں مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد ان کی ہے جن کو غلط فرقے اسلام کے نام پر دھوکا دیکر اپنی صفوں میں تیزی سے شامل کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کے نزدیک مرنے کے بعد کی زندگی اور آخرت کا کوئی مفہوم نہیں ہے ان کے نزدیک بس اس دنیا میں اپنا مستقبل بنانے کے لئے ہر اچھا اور برا کام کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ پچاس سال سے ملک کا انتظام بھی اسی تعلیم یافتہ طبقے نے سنبھال رکھا ہے۔ آپ ایک اچٹتی سی نظر ان کی کارگزاریوں پر ڈالئے تو سرشرم سے جھک جائے گا انہیں تعلیمی اداروں نے وہ پولیس ملک کو دی ہے جو چوروں اور ڈاکوؤں سے بڑھ کر عوام کو لوٹتی ہے اور بدعنوانی اور بدنامی کے تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ انہیں تعلیمی اداروں نے ملک کو وہ فوج دی ہے جس کے لاکھوں مسلح افراد کی موجودگی کے باوجود ہمارا مشرقی بازو ہم سے کٹ کر رہ گیا فوج کے بارے میں آپ مزید معلومات کسی دین دار ریٹائرڈ فوجی آفیسر سے لے سکتے ہیں۔ انہیں تعلیمی اداروں نے ہمیں وہ بیورو کریسی دی جس نے ملک کی رگوں سے تمام خون نچوڑ کر پی لیا ہے اور ملک کو بھوک اور بیماری کے گڑھوں میں دھکیل دیا ہے۔
انہیں تعلیمی اداروں نے ہمیں وہ حکمران دیئے ہیں جن کی اخلاقی گراوٹ اور حیوانی افعال پر مظلوموں کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور اگر ان مذکورہ بالا اداروں میں کہیں کوئی اچھائی یا خیر آپ کو نظر آئے گی تو اس کے پیچھے مدرسہ ہی نظر آئے گا۔ اس لئے ان تمام حالات کی تمام تر تفصیلات پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان مدارس کو اسی ترتیب پر چلایا جائے جس سے ان میں سے خالص دین دار لوگ پیدا ہوں اور یہ فی الحال اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان مدارس کے تعلیمی نظام کو خالص رکھا جائے۔ دراصل ہو یہ رہا ہے کہ علماء کرام اور ان کے تربیت یافتہ افراد کی مسلسل کوششوں سے بہت سے بڑے فوجی افسران اور دیگربڑے تعلیم یافتہ افراد دین کی محبت اور اس پر عمل سے سرشار ہو رہے ہیں اور حضرات علماء کرام ان افراد کی خوب قدرومنزلت کرتے ہیں اور انہیں خوب احترام دیتے ہیں اور علماء کرام کو ایسا کرنا بھی چاہئے اور ان کی اس طرح کی خوش اخلاقی اور حوصلہ افزائی کی بدولت انگریزی نظام تعلیم کے یہ بڑے ڈگری یافتہ افراد دین کے رنگ میں پوری طرح رنگے جاتے ہیں اور ان کی شکل و صورت اور ان کے اخلاق و اعمال دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کوئی بڑے ڈاکٹر ہیں یا بڑے عالم؟ کوئی اعلیٰ فوجی افسر ہیں یا کسی دینی درسگاہ کے مدرس؟ یہ تو ایک بہت ہی اچھا پہلو ہوا مگر ان دیندار افراد میں سے بعض کو اچانک یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے مولویوں کو بھی ماڈرن بنایا جائے اور انہیں دنیا کے موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے چنانچہ وہ علماء کرام کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ لوگ کچھ عصری علوم بھی پڑھایا کریں عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی اور فقہ کے ساتھ ساتھ سائنس بھی مدرسوں میں داخل کریں اس طرح سے دین کا بہت کام ہوگا اور آپ لوگوں کو دنیا داروں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس میں شک نہیں کہ ان حضرات کا مشورہ خیرخواہی پر مبنی ہوتا ہے لیکن اگر مدارس والوں نے کبھی بھی اس مشورے کو قبول کرنے کی غلطی کی تو یہ ’’تحریک مدارس‘‘ کی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا اور دنیا مدارس کے اس عظیم فیض سے محروم ہوتی چلی جائے گی جو اب تک مدارس اسے پہنچا رہے ہیں چونکہ دلائل اور تفصیلات کا مقام نہیں ہے اس لئے بات کو مختصر کرنے کیلئے اتنا عرض ہے کہ اسی مضمون میں تحریک مدارس کے بنیادی مقاصد کا خلاصہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اسے دوبارہ پڑھ لیجئے اور پھر غور کیجئے کہ مخلوط نظام تعلیم سے یہ مقاصد پورے ہوں گے یا نہیں؟ اسی طرح یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مدارس کے تعلیمی معیار میں پہلے کی نسبت کافی انحطاط آچکا ہے اب اگر عصری علوم بھی شامل کردیئے گئے تو ان مدارس کے فارغ التحصیل افراد اس قابل بھی نہیں رہیں گے کہ کسی عام آدمی کو دینی مسائل بتا سکیں جبکہ اپنے اکابر کی تحقیقات پڑھنا اور سمجھنا اور مسائل جدیدہ کا شرعی حل نکالنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مضرات اس میں ہیں۔
البتہ اگر ان حضرات کے مشورے کا مقصد دینی مدارس اور عصری فنون پڑھنے والے افراد کے درمیان فاصلہ کم کرنا ہے تو اس کے اور کئی طریقے ہیں مثلاً (۱) دنیاوی تعلیم رکھنے والے افراد جب اپنی ملازمتوں سے ریٹائر ہوں تو مدارس میں باقاعدہ آکر سات آٹھ سال میں پوری دینی تعلیم حاصل کریں۔ یہ تجربہ کئی افراد نے کیا ہے اور الحمدللہ وہ دین کا خوب کام کررہے ہیں۔ (۲) مدارس والے اپنے بعض ہونہار اور صالح طلبہ کو دینی علوم سے فراغت کے بعد اپنی نگرانی میں دنیاوی فنون پڑھائیں۔ مگر اس کیلئے ایسے طلبہ کا انتخاب کیا جائے جن پر دینی رنگ خوب چڑھ چکا ہو پھر وہ ڈاکٹر بنیں گے یا جج حقیقت میں عالم دین ہی رہیں گے۔ ہمارے سامنے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی مثال موجود ہے لیکن اگر یہ کام مدارس والے خود اپنی نگرانی اور کفالت میں کروائیں تو بہت فائدہ ہوگا (۳)ایسے سکول بنائے جائیں جن میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ کافی دینی تعلیم بھی ہو۔ یہ تجربہ بھی بعض افراد نے کیا ہے اور وہ کامیاب رہے ہیں۔ یعنی سکولوں میں مدرسے کی اچھائیاں شامل کی جاسکتی ہیں مگر مدرسے کو خالص ہی رکھا جائے تاکہ خالص اسلامی نسل تیار ہوتی رہے۔ عام فہم الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سکولوں کو بے شک مدرسہ بنا دیجئے مگر مدرسے کو سکول نہ بننے دیجئے۔
٭۔ ۔ ۔ یہ تو ہیں بعض وہ متبادل صورتیں جو مدرسے اور کالج کے فاصلے کو کم کرسکتی ہیں ویسے اگر حضرات علماء کرام مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کو اور زیادہ ترقی دیں تو یہ بھی بہت مفید واقع ہورہا ہے باقی جہاں تک علماء کو دنیا داری سکھانے کی بات ہے تو اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے قرآن و حدیث جہاں دین داری سکھاتے ہیں وہاں وہ دنیا میں رہنے بلکہ دنیا کو چلانے اور جہانبانی کے طریقے بھی سکھاتے ہیں اسلام میں دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اللہ کا فضل ہے کہ ان مدارس کے فیض یافتہ افراد دنیا کے جس میدان میں بھی اترے ہیں اس میں انہیں کوئی دقت نہیں ہوئی بلکہ وہ اعلیٰ تہذیب اور عمدہ اخلاق کے ساتھ دنیاوی تقاضوں سے عام دنیا داروں کی بنسبت زیادہ اچھا نمٹ لیتے ہیں اور گاڑی سے لے کر وزارت تک سب کچھ چلا لیتے ہیں اور خوب چلاتے ہیں۔
دوسرا خطرہ

مدارس چلانے والوں کے لئے ضروری ہے کہ بڑی سختی کے ساتھ ان روایات اور طرز پر کاربند رہیں جو ان مدارس کو چلاتے وقت ماضی میں حضرات اکابر نے اختیار فرمائی تھیں۔ ان روایات میں سے بعض تو بہت ہی بنیادی اور لازمی ہیں اور اگر خدانخواستہ ان بنیادوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ان مدارس کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان بنیادی امور میں سے سب سے اہم مدارس کا شورائی نظام ہے۔ حضرات اکابر کے نزدیک یہ مدارس کبھی بھی فرد واحد کی ذاتی جاگیر نہیں رہے بلکہ یہ ہمیشہ امت مسلمہ کی امانت رہے ہیں اور ان مدارس کو چلانے کیلئے اہل علم اولیاء اللہ پر مشتمل ایک بااختیار شوریٰ بنائی جاتی تھی اور مدرسے کے مہتمم صاحب یا ناظم صاحب اسی شوریٰ کے ماتحت رہ کر کام کرتے تھے مدرسے کے جملہ معاملات یہی شوریٰ طے کرتی تھی اور مدرسے کے اموال کا مکمل حساب شوریٰ کو پیش کیا جاتا تھا۔ اور نئے مہتمم صاحب کی تقرری یا تبدیلی سے لے کر مدرسے کی تعمیر تک کے معاملات صرف شوریٰ ہی کے اختیار میں ہوتے تھے۔ اور یہ شوریٰ ان اہل علم اولیاء اللہ پر مشتمل ہوتی تھی جو ہر طرح کے دباؤ اور نفسانی تقاضوں سے بالاتر ہوکر ان مدارس کو دین کا اہم ترین کام سمجھ کر چلاتے تھے۔ چنانچہ پھر خیرو برکت بھی دیکھنے کے لائق ہوتی تھی۔ اگر آج بھی اہل مدارس کو اسی خیرو برکت کی ضرورت ہے اور وہ مدارس کو اپنے تمام فوائد کے ساتھ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو فوراً یہ نظام قائم فرمائیں اور ان بزرگ علماء کرام کی شوریٰ بنائیں جن کے نزدیک مدارس کی اہمیت بہت زیادہ ہو اور وہ اپنا وقت بھی دے سکیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مدارس سے یہ بابرکت نظام اٹھتا چلا جارہا ہے چند مدارس کو چھوڑ کر باقی میں یا تو کوئی شوریٰ ہے ہی نہیں اور اگر شوریٰ بنائی گئی ہے تو اس کے پیچھے سوائے چندے اور مالی ذرائع کے اور کوئی مقصد کار فرما نہیں ہے یہ صورتحال سخت تشویش ناک ہے اللہ کرے اہل دل اٹھیں اور جلد اس کا تدارک فرمائیں۔ اسی طرح ضروری ہے کہ مدارس کی بنیاد محض تقوے پر ہو اور مقصد محض اللہ تعالیٰ کی رضا ہو کیونکہ اگر مدرسے کی بنیاد تقوے پر نہیں ہوگی تو وہ دارالعلوم دیوبند کی شاخ نہیں بن سکتا البتہ مسجد ضرار کی نئی شکل ہوسکتا ہے اور جب مدارس کی بنیاد تقوے پر ہوگی تو پھر مدرسہ چلانے کیلئے یا اسے بڑھانے کے لئے غیر مہذب اور رسوا کن طریقے اختیار نہیں کئے جائیں گے بلکہ کام اور اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ خود ہی ترقی عطا فرماتا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مدارس میں ان چیزوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے جن کا ہمارے اکابر التزام فرماتے تھے مثلاً طلبہ کی جسمانی ورزش، ان کی صحت کی حفاظت، انہیں بنوٹ وغیرہ سکھلانے کی سہولت۔ احادیث کو حفظ کرانے کا معمول، مضمون نویسی ،خطابت اور خوش نویسی ، طلبہ میں اتباع سنت کو عام کرنے کیلئے ان کا جائزہ اور محاسبہ ، مسنون دعائیں یاد کرانے کا اہتمام۔ وغیرہ وغیرہ اور اب اس بات کی ضرورت بھی بہت بڑھ گئی ہے کہ طلبہ کو نصابی کتب کے عربی یا فارسی متن کو بغیر اردو شروحات کے سمجھنے کا پابند بنایا جائے اور عربی تقریر و تحریر میں انہیں مہارت دلائی جائے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ اور طلباء کے عمل اور کردار کی بلندی پر خصوصی توجہ دی جائے اور کسی بھی بے عمل استاذ یا بدعمل طالب علم کو مدرسے میں پناہ نہ دی جائے۔ بلکہ اس زمانے کو زندہ کیا جائے جب دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث صاحب سے لے کر باورچی تک سب صاحب نسبت ہوا کرتے تھے اور یہ زمانہ تبھی لوٹ سکتا ہے جب طلبہ کی عملی ، روحانی اور فکری تربیت پر بھی خوب محنت کی جائے اور ان کی علمی تربیت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔
تیسرا خطرہ

دنیا میں شیطان کی قیادت اور رہنمائی میں ایسے لٹیروں اور نقالوں کا ایک گروہ ہمیشہ سے سرگرم رہا ہے جو اچھی چیزوں کے نام پر برائی پھیلاتا ہے اور اپنے مفادات کی خاطر اچھائیوں کو بدنام کرتا ہے۔ ان لٹیروں نے نقلی خدا و نقلی رسول تک بنا ڈالے تو بھلا اور کون ان کی نقالی سے بچ سکتا ہے؟ نقالی کے ماہر یہ لٹیرے ہمیشہ سے مسلمانوں کے لئے سخت نقصان کا باعث بنے ہیں نقلی پیروں نے کروڑوں لوگوں کو گمراہ کیا اور بے شمار لوگوں کو اصلی پیروں سے بھی بدظن کردیا۔ جعلی حکیموں نے ہزاروں لوگوں کی جان لی اور بہت سارے اصلی حکیم بھی بدنام کرڈالے ان پیشہ ور فراڈی لٹیروں سے مدارس بھی محفوظ نہ رہ سکے چنانچہ ان لٹیروں نے علماء کے روپ میں جگہ جگہ مدارس قائم کئے تاکہ لوگوں سے مال بٹور سکیں اور مالداروں کو دین کے نام پر دھوکہ دے سکیں۔ چونکہ یہ نام کے مدارس حقیقت میں پیشہ ورانہ دکانیں ہیں اس لئے ان میں نہ علم پڑھایا جاتا ہے اور نہ عمل سکھایا جاتا ہے وہاں نہ تو اساتذہ باعمل ہیں اور نہ طلبہ باکردار۔ عام مسلمان دھوکے میں آکر اپنا مال بھی ان دکانوں میں لٹا آتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ضائع کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ دکانیں دین اور مدارس کی بدنامی اور رسوائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اور اگر ان کے سدباب کیلئے مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو مدارس کا کام اور ان کی نیک نامی شدید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس خطرے کے سدباب کیلئے اہل علم حضرات کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ کیونکہ مدارس کی حفاظت ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ سردست اگر وفاق المدارس کے نظام کو مضبوط تر کیا جائے اور اس میں صرف انہیں مدارس کو رکنیت دی جائے جو مدارس کے حقیقی معیار پر پورے اترتے ہوں اور پھر ان مدارس کی فہرست عام کی جائے تاکہ عوام الناس دھوکے میں آکر اپنے سرمائے اور اپنی اولاد کو ضائع نہ کریں۔ ان تین خطرات کے بیان کے بعد اب دینی مدارس کے طلبہ سے چند گزارشات کی جاتی ہیں کیونکہ اگر طلبہ کرام اپنے مقام اور مقصد کو سمجھیں گے اور اپنے اوپر عائد ہونے والی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو نبھائیں گے تو پھر مدارس کا نور خوب پھیلے گا اور انہیں انشاء اللہ کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

دینی مدارس کے طلبہ کرام  سے چند گزارشات

عزیز طالب علم بھائیو! آپ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں بہترین لوگ ہیں۔ ممکن ہے آپ لوگوں کو اپنا مقام معلوم نہ ہو لیکن فرشتوں کو آپ کا مقام معلوم ہے اسی لئے وہ آپ کے قدموں میں بچھے جاتے ہیں آپ آسمان سے نازل ہونے والے آئین اور نظام کے محافظ ہیں۔ آپ کائنات کی سب سے افضل اور عظیم ہستی کے علوم کے وارث ہیں آپ حضرات دنیاوی حکومتوں کے اراکین پارلیمنٹ ، ججوں اور فوجی آفیسروں کی طرح تنخواہ لے کر انسانوں کے بنائے ہوئے غیر منصفانہ قوانین کے محافظ نہیں ہیں۔ بلکہ آپ تو اس قانون کے محافظ ہیں جو کائنات بنانے والے رب نے اس کائنات کو ٹھیک ٹھیک چلانے کیلئے قرآن کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔
اس لئے عزیز طالب علم بھائیو! لِلّٰہ اپنے مقام کو سمجھو۔ آپ لوگوں کی چٹائی اللہ کے ہاں بادشاہوں کے مرصع تختوں سے افضل ہے۔ اس لئے کبھی بھی دنیا کے چند حقیر ٹکوں یا تھوڑی سی عزت کی خاطر اپنی فقیری ، خود داری اور استغنا کو بٹہ نہ لگنے دینا۔ آپ لوگوں کی دینی طرز اور اتباع سنت کا جذبہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اسی لئے اس میں کسی طرح کی کمی نہ آنے دینا اور نہ ہی دنیا کے سرخ و سفید مکڑوں کے نت نئے فیشنوں سے مرعوب ہوکر اپنی طرز بدلنا۔ آپ حضرات اپنے افکار کو آسمانوں سے اور اپنے کردار کو فرشتوں سے بلند رکھیں کیونکہ آپ حضرات ام الکتاب کی حکمت کے امین ہیں۔ یاد رکھئے اللہ کے ہاں آپ کا یہ عالی مقام صرف اس لئے ہے کہ آپ اس کے علم کے طالب ہیں اس لئے علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھیں۔ علم کا نور آہستہ آہستہ بجھتا جارہا ہے اور دنیا سے جانے والے اکابر کی خالی نشستیں امت کی طرف افسوس کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔ طالب علموں پر تن آسانی اور سہل انگاری کے جالے بری طرح سے تن چکے ہیں اردو شروحات اور امتحانی سوالات کے حل پر مبنی کتابوں نے ان جالوں کو مضبوط کردیا ہے موجودہ اکابر کے دنیا سے جانے کا تصور کرکے روح کانپ اٹھتی ہے اس لئے خدارا آپ حقیقی طالب علم بنئے اور علم میں خوب پختگی حاصل کیجئے اپنی راتوں کو مطالعے سے روشن رکھیے اور مَنْ جَدَّ وَجَدَ کے راز کو سمجھئے۔ مدرسے کی سند کو اس وقت تک اپنے لئے حرام سمجھئے جب تک آپ اپنے درس کی ہر کتاب کی ہر سطر کو نہ سمجھ لیں یاد رکھیئے آپ کی محنت امت مسلمہ کا مستقبل روشن کرسکتی ہے اور آپ کی غفلت پوری امت پر جہالت اور فتنوں کی سیاہ چادر تان سکتی ہے۔ اس لئے وقت ضائع نہ کیجئے۔ انسان کی قدر اس کے وقت کی قیمت سے پہچانی جاتی ہے۔ اس لئے آپ کا وقت فضول گپ بازیوں ، ظاہری بناوٹوں اور بے کار مشغلوں میں ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے اندر اصحاب صفہ والی وارفتگی ، جذبہ اور لگن پیدا کیجئے اور سادگی اور اتباع سنت کو ہی اپنی زینت سمجھیے۔ اپنی قوت حافظہ کی حفاظت کی ضرور فکر کریں کیونکہ آپ لوگوں کا ذہن اور حافظہ مقدس علوم کی آماجگاہ ہے۔ جس طرح سے وہ کاغذ قیمتی بن جاتا ہے جس پر قرآن مجید لکھا جائے اسی طرح آپ کے ذہن اور حافظے بھی قیمتی ہیں۔ ان کی حفاظت کے لئے آپ ہر ممکنہ تدبیر کیجئے ان تدابیر میں روزانہ بلاناغہ ورزش کرنا ، تقریباً آدھا گھنٹہ پیدل چلنا ، تصویریں دیکھنے اور ساز گانے سننے سے پرہیز کرنا ، اپنی نظر کو بھٹکنے سے بچانا ، زیادہ کھٹی اور چٹپٹی اشیاء سے پرہیز کرنا۔ رات کی بچی ہوئی روٹی علی الصبح ناشتے میں شہد کے ساتھ کھانا اور رات کو سوتے وقت چار دانے بادام ،چار دانے کالی مرچ ،چار دانے بڑی کشمش اور چار ماشے سفید مصری کھانا اور فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے سونے سے پرہیز کرنا۔ چوبیس گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے سونا قابل ذکر ہیں۔ یاد رکھیئے ہمارے اکابر اپنی جسمانی صحت کا خوب خیال رکھتے تھے اور اپنے جسموں کو مشکلات میں صبر کرنے والا بناتے تھے آپ بھی اس سے غافل نہ رہیں۔ بدھ مذہب کے مشرک اپنے مذہبی اداروں میں باقاعدہ جسمانی ورزش کراتے ہیں چنانچہ ان کے ستر سالہ مذہبی رہنما اس عمر میں بھی الٹی چھلانگیں لگالیتے ہیں حالانکہ یہ سبق اسلام نے سب سے پہلے دیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دوڑ لگانا، تیر اندازی کے مقابلے میں شرکت فرمانا، گھڑ سواری فرمانا اور کشتی کرنا ثابت ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوتے تھے مگر آج عمومی طور پر مدارس میں سستی کا ماحول چھایا ہوا ہے۔ خدارا اس ماحول کو بدل دیجئے اور اپنے جسم کو مضبوط اور پھرتیلا بنایئے اور جب آپ خود مدارس کا نظام سنبھالیں تو اس چیز کو طلبہ کے لئے لازمی قراردیں کیونکہ جب تک مدارس کی انتظامیہ اس طرف توجہ نہیں دے گی اس وقت تک اس کا عمومی ماحول تیار نہیں ہوگا۔ چنانچہ آج ورزش اکثر وہی طالب علم کرتے ہیں جو محنت سے نہیں پڑھتے جبکہ محنت سے پڑھنے والے طلبہ اکثر چادروں میں بالکل پیک ہوکر رہتے ہیں۔ چونکہ اکثر طلبہ کے جسم مشقت کے عادی نہیں ہوتے اس لئے وہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں یہ بات بھول جاتی ہے کہ اکابر نے ان مدارس کی بنیاد اس لئے رکھی تھی تاکہ امت مسلمہ کو جہاد کیلئے قیادت فراہم ہو۔ مگر افسوس سستی ، تن آسانی اور کم ہمتی سے جہاد بھول جاتا ہے اور قرآنی آیات کی تاویل کرلی جاتی ہے والی اﷲ المشتکی۔ جسمانی صحت کیلئے صفائی یعنی نظافت ازحد ضروری ہے۔ اسلام نے خصوصی طور پر نظافت کی تاکید فرمائی ہے طلبہ کرام بھی اس کا خصوصی اہتمام فرمائیں اپنے دانتوں ، آنکھوں اور کانوں کی حفاظت کیلئے مسواک ، سرمہ وغیرہ باقاعدگی سے استعمال کیا کریں سر میں تیل بھی لگایا کریں کیونکہ شیمپو سے دماغ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اسی طرح زیادہ سے زیادہ غسل کرنے اور ستھرا لباس پہننے کا اہتمام کیا کریں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ طالب علموں کے دل میں دین کی کڑھن اور امت کا غم ہونا چاہئے۔ یہی کڑھن اور غم انہیں کندن بناسکتا ہے اور ان کی تحریر و تقریر میں اثر انگیزی پیدا کرسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ طالب علم امت مسلمہ کی موجودہ حالت پر غور کیا کریں اور دیکھا کریں کہ کس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین دنیا سے مٹایا جارہا ہے اور کس طرح سے امت مسلمہ کو تباہ کرنے کی خوفناک سازشیں رچائی جارہی ہیں۔ ان حالات میں اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں تو یہ سب کچھ دیکھ کر ان کی کیا کیفیت ہوگی؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر محنت فرمائیں گے؟ اے طالب علم بھائیو آپ کا دل امت کے غم میں تڑپنے والا اور آپ کی آنکھیں اللہ کے خوف سے رونے والی ہونی چاہئیں۔ اے عزیز طالب علم بھائیو! ہمارے اکابر علم کے دریا تھے اور ان کے قلوب ایمانی نور سے منور تھے ان کی زندگیاں مثالی تھیں اور ان کا انجام بہت ہی عمدہ ہوا۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اکابر کی عظمت کو سمجھیں اور ان کے مسلک کو مضبوطی سے تھام لیں اور پرانے مسائل کی نئی نئی تحقیقات سے متاثر ہوکر اپنے اکابر کا راستہ نہ چھوڑیں۔ انہوں نے اس مسلک کی حقانیت کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔ ہم مسلک کے معاملے میں خود کو اپنے اکابر کا مکمل پابند سمجھیں اسی میں ہمارے لئے بے شمار خیر ہے اور ہم پرانے مسائل کی ازسرنو تحقیقات کی بجائے اپنے اکابر کی رائے کو حرف آخر سمجھیں اور دوبارہ تحقیقات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے دین کو دنیا پر نافذ کرنے کی جدوجہد اور محنت کریں اور امت کو درپیش جدید مسائل کا حل تلاش کریں۔ یاد رکھیئے اپنے اکابر کے مسلک سے سرموانحراف ہمیں بہت دور جا پھینکے گا اور ہم اپنی زندگیاں انہی موشگافیوں میں ضائع کردیں گے جن کا فیصلہ امت مسلمہ کے اکابر صدیوں پہلے فرما چکے ہیں۔ عزیز طالب علم بھائیو! پہلے زمانے میں مدارس میں بڑے مجاہدے ہوا کرتے تھے مگر اب الحمدللہ پکا پکایا کھانا ملتا ہے اور بھی بہت ساری سہولتیں ملتی ہیں اسی لئے نفس کے بہکنے کا بہت خدشہ ہے اپنے نفس کی اصلاح ہر انسان کے لئے فرض ہے آپ بھی اپنی اصلاح سے غافل نہ رہیں بلکہ کسی باشرع صاحب نسبت بزرگ سے بیعت کرلیں اور ان کے بتائے ہوئے مختصر معمولات کا خود کو پابند رکھیں اس طرح سے آپ ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت کلام پاک پر دوام کی بدولت اللہ کا قرب پائیں گے اور آپ کے علم و عمل میں خوب برکت ہوگی۔ اور آپ حب دنیا اور حب جاہ کے فتنوں سے بھی بچ جائیں گے یاد رکھیئے دنیا پرست عالم شیطان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ بزدل عالم امت کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلتا ہے اور متکبر عالم کڑوا درخت ہوتا ہے اور ریاکار عالم منافقت کا علمبردار ہوتا ہے اس لئے اپنے اکابر کی صحبت اور ان کے بتائے ہوئے نسخوں کے ذریعے آپ دنیا پرستی ، بزدلی ، تکبر اور ریاکاری کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں بلکہ اعلیٰ اخلاق ، عمدہ صفات اور بہترین اعمال کے ساتھ آپ علم اور جہاد کے میدانوں میں امت کی قیادت کیلئے خود کو تیارکریں۔ عزیز طالب علم بھائیو! آپ حضرات کسی ایک ملک ، علاقے یا کسی خاص قوم کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ آپ اس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کے وارث ہیں جنہوں نے ملک ، قوم اور رنگ و نسل کے امتیاز کو مٹا کر تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح قراردیا۔ اس لئے علاقائیت ، لسانیت اور قوم پرستی کے بتوں کوہمیشہ توڑتے رہیے اور امت کے اتحاد کیلئے ہر وقت سرگرم رہیے۔ یاد رکھیے آپ کے کاندھوں پر پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری پڑنے والی ہے آپ خود کو اس عظیم ذمہ داری کا اہل بنانے کیلئے رات دن ایک کر دیجئے۔
آپ حضرات سے آخری گزارش یہ ہے کہ اس مضمون میں مدارس کو لاحق جن تین خطرات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان تینوں خطرات کے منحوس سائے اب پھیلنا شروع ہوچکے ہیں کئی ایک مدارس ان خطرات کا شکار ہوچکے ہیں۔ شوریٰ کا نظام معطل ہونے کی وجہ سے بعض مدارس پر جاہل صاحبزادے قابض ہوکر انہیں خاندانی گدیاں بنا رہے ہیں۔ اگر یہ صاحبزادے ان مدارس کو چلانے اور سنبھالنے کے اہل ہوتے تو پھر کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ خوشی کی بات تھی مگر کئی جگہوں پر اہلیت اور صلاحیت سے قطع نظر صرف وراثت کے اصولوں پر مدارس کے چراغ گل کئے جا رہے ہیں اور تو اور مدارس کے بعض مہتمم حضرات کے چھوٹے بچوں کو ابھی سے چھوٹا مہتمم صاحب کہا جاتا ہے حالانکہ ابھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ صاحبزادہ اپنے والد کا خلف الرشید بنے گا یا بڑا ہوکر اپنے والد کی ہڈیاں فروخت کرے گا۔ اسی طرح مدارس میں عصری علوم کے داخلے کی تجویز بھی زور پکڑتی جا رہی ہے اور نقلی مدارس کا جال بھی پھیلتا جارہا ہے۔ آپ حضرات ان خطرات پر نگاہ رکھیں اور کل جب آپ میدان عمل میں اتریں تو مدارس کو ان خطرات سے بچانے کی بھرپور جدوجہد کریں۔
عام مسلمانوں سے ایک گزارش

آپ حضرات نے گزشتہ سطور میں مدارس کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں چند باتیں پڑھ لی ہیں اور آپ لوگ اپنے تجربے کی بنا پر بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ان مدارس کی مسلمانوں کو کتنی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ لوگ اپنے فرض کو سمجھئے اور اللہ کے سب سے محبوب اور آخری دین کی من و عن حفاظت کیلئے ان مدارس کی تعمیروترقی میں علماء کرام کا خود آگے بڑھ کر ہاتھ بٹائیے۔ اور اپنے ہونہار بچوں کو ان مستند مدارس میں بھیج کر اپنی آخرت سنوارئیے۔ یاد رکھیئے یہ مدارس دین اسلام کی حفاظت کے قلعے ہیں یقیناً وہ لوگ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ ان قلعوں کی تعمیروترقی اور حفاظت کی توفیق عطا فرمائے گا۔
دوسرا انتظام  توحید پر مبنی صاف ستھرا خانقاہی نظام
انگریز کے مسلط کردہ سانپوں کے خاتمے ، اور ان سے مسلمانوں کی حفاظت ، اور مسلمانوں میں اخلاص و للہیت ، صدق و صفا اور فکر آخرت پیدا کرنے کے لئے دوسرا انتظام خانقاہوں کی اصلاح و ترویج کا کیا گیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو خانقاہی نظام کے سلسلے میں دو بڑی پریشانیوں کا سامنا تھا ایک یہ کہ انگریز نے اور برہمنوں نے پیری مریدی کے نام سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا جو کام شروع کیا تھا وہ انتہائی کامیاب رہا اور نقلی پیروں اور جعلی صوفیوں نے دین کا بے حد نقصان کیا۔ ظاہری طور پر جبہ و دستار سے منور نظر آنے والے ان تاریک ذہن بدبختوں نے مسلمانوں میں شرک بھی پھیلایا اور لادینی بھی۔ انہوں نے مسلمانوں کا ایمان بھی لوٹا اور ان کا مال بھی۔ یہ لوگ شہد اور دودھ کے نام پر زہر اور غلاظت بیچ رہے تھے اور سادہ لوح جاہل عوام تیزی سے ان کے نرغے میں آتے جا رہے تھے۔ کئی ایک برہمنوں نے مسلمان بابوں کا روپ دھارا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جھوٹی کرامات کا ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ مسلمان پروانوں کی طرح ان کی جلائی ہوئی آگ میں گرنے لگے اور ان ہندوؤں کو بڑے بڑے القاب سے یاد کرنے لگے آج بھی ان برہمنوں کی اولاد اپنے بڑوں کی طرح دن رات مسلمانوں کے ایمان اور مال پر ڈاکے ڈال رہی ہے یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی جو مسلمانوں پر مکار دشمنوں نے مسلط کردی تھی مگر اس مصیبت کے ساتھ ایک اور مصیبت یہ آئی کہ بہت سارے لوگ نقلی دودھ سے تنگ ہوکر اصلی دودھ سے بھی متنفر ہوگئے اور انہوں نے ان نقلی پیروں اور شرک فروش بابوں کے عمل و کردار کو دیکھ کر حقیقی سلوک و احسان کی بھی مخالفت شروع کردی۔ اور یوں ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت اور ایک فتنے کے بعد مسلمانوں کو دوسرے فتنے کا سامنا ہوا اور حقیقت میں یہ دوسرا فتنہ پہلے فتنے سے کچھ کم خطرناک نہیں تھا۔ سلوک و احسان کے ان مخالفین نے امت کے سامنے ایسا دین پیش کیا جس میں زبان تو خوب چلتی ہے مگر دل مردہ ہوتے ہیں۔ اونچے افکار تو بیان کئے جاتے ہیں مگر بیان کرنے والے ایمانی سوزوگداز سے محروم ہوتے ہیں چنانچہ کچھ ہی عرصے میں ان کے افکار بھی گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ تدبیریں کرتے ہیں مگر اخلاص اور انابت الی اللہ سے محرومی کی وجہ سے ان کی تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں۔ دراصل سلوک و احسان ہی وہ راستہ ہے جو علم کو نافع ، عمل کو اخلاص پر مبنی اور نیت کو صاف ستھرا بناتا ہے آسمان سے اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب نہیں اتاری بلکہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی بھیجا تاکہ ان کی صحبت کتاب کے علم کو لوگوں کے قلوب میں اتار دے یہی صحبت تھی جس نے عرب کے بگڑے ہوئے لوگوں میں سے حضرات صحابہ کرام ؓ جیسی مثالی جماعت تیار کی۔ اس صحبت کو اگر دین سے نکال دیا جائے تو خالی مطالعہ یا خالی فکر انسان کو انسان نہیں بناسکتی۔
چونکہ یہ بات (عمومی طور) یقینی ہے کہ بغیر صحبت کے قلوب میں دین راسخ نہیں ہوتا اور انسان کے اندر چھپی ہوئی روحانی بیماریوں کی تشخیص اور علاج بھی نہیں ہوتا اس لئے تصوف اور احسان کا منکر طبقہ طرح طرح کے الحادی فتنوں کا شکار ہوا ان لوگوں کے قلوب چونکہ ادب و احترام اور سوزوگداز سے خالی تھے اس لئے انہوں نے نہ تو اکابر و اسلاف پر اعتماد کیا اور نہ امت کے ائمہ کرام پر طعن و تشنیع سے پرہیز کیا اور نہ یہ لوگ ایک دوسرے کا اکرام کرسکے۔ ہر کسی نے دین کو اپنے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کی اور امت کے سرپر ایک نیا فتنہ اور ایک نیا فرقہ مسلط کردیا۔ اس طبقے کے کچھ لوگ تو بہت ہی آگے نکل گئے اور ایمان تک سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کچھ نے اپنی جدید تحقیقات کو ایک حد تک جاکر روک دیا اور صرف چھوٹا موٹا دھڑا بنانے پر اکتفا کیا۔ دوسری طرف تصوف و سلوک کی نہریں بند ہونے سے یہ بھی خطرہ لاحق ہو گیا کہ اہل علم حب مال اور حب جاہ کا شکار ہوجائیں اور اس طرح سے فتنوں کا نیا دروازہ کھل جائے۔ چنانچہ اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے برصغیر کے اہل حق اکابر نے یہ تجدیدی کارنامہ بھی سرانجام دیا کہ خانقاہی نظام کو ہر طرح کے نقائص اور ملاوٹ سے پاک کرکے اس کی ترویج فرمائی۔ الحمدللہ ان کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوئی اور لاکھوں مسلمانوں نے حقیقی اولیاء اللہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور اپنے قلوب کو معرفت الٰہی اور اخلاص کے نور سے منور کیا۔ یہ لوگ اس ترتیب کی بدولت جعلی پیروں سے بھی بچ گئے اور ان نام نہاد دینداروں سے بھی یہ محفوظ رہے جن کے نزدیک اللہ جل شانہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف علمی اور فکری بحث کے (معاذ اللہ) دو کردار ہیں اور ان کے قلوب اللہ کی عظمت اور رسول ﷺ کی شان کی حلاوت سے یکسر خالی ہیں۔ خانقاہی نظام کی اصلاح اور ترویج میں خصوصی کردار حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نور اللہ مرقدہ اور ان کے خلفائے کرام کا رہا۔ حضرت حاجی ؒ صاحب کے فیض یافتہ خلفاء میں سے حضرت گنگوہی قدس سرہ اور حضرت تھانوی قدس سرہ نے اس میدان میں علماء اور عوام کے ہر طبقے کی وہ رہنمائی فرمائی جو تاقیامت یاد رکھی جائے گی۔ حضرت گنگوہی ؒ کا سلسلہ آگے چل کر حضرت مدنی ؒ نے سنبھالا اور اس پر نور دبستان کی رونق میں چار چاند لگا دیئے۔ حضرت مدنی ؒ عظیم ولی اور عظیم مجاہد تھے ان کے تلامذہ اور خلفاء نے ان کے مبارک سلسلے سے لاکھوں مسلمانوں کو فیض یاب کیا اور الحمدللہ اب تک حضرت مدنیؒ کے بعض خلفاء کرام حیات ہیں اور اپنے شیخ کے خالص مدنی نور کو پھیلا رہے ہیں۔ چند سال پہلے بنگلہ دیش کے سفر کے دوران معلوم ہوا کہ وہاں الحمدللہ حضرت کے تیس خلفاء کرام ابھی تک علم و روحانیت کی خدمت میں مشغول ہیں۔ دوسری طرف حضرت اقدس تھانوی ؒ نے تو چمنستان احسان و سلوک کو ایسا سینچا کہ اسے حضرت کا تجدیدی کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ حضرت کی خانقاہ نے برصغیر سے بدعات اور الحاد کی جڑکاٹ کر رکھ دی۔ حضرت کی تصانیف کے مطالعے اور آپ کی سوانح پر نظر ڈالنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ نے صرف مروجہ بدعتوں کی ہی اصلاح نہیں فرمائی بلکہ ان کے ساتھ ساتھ آپ نے مزاج کی بدعتوں کا بھی علاج فرمایا۔ دراصل بعض لوگ بدعتی مزاج کے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کا عقیدہ اگرچہ بدعات سے صاف ہوتا ہے مگر وہ اپنے مزاج کے بدعتی ہونے کی وجہ سے عملی بدعتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حضرت نے اس طرح کے لوگوں کے مزاج کا بھی کافی شافی علاج فرمایا اور اپنی تصانیف میں بھی ایسا مواد بکثرت چھوڑا جو بدعتی مزاج لوگوں کی اصلاح کیلئے کافی ہے الحمدللہ حضرت کی خانقاہ سے پھوٹنے والے چشمے بعد میں بڑے بڑے دریا بنے اور آج تک امت ان سے مستفید ہورہی ہے۔ غالباً حضرت مولانا فقیر محمد صاحب نور اللہ مرقدہ (پشاور والے) کے بعد اب حضرت کے براہ راست کوئی خلیفہ زندہ نہیں ہیں مگر ان کے جاری کردہ فیض کے چشمے الحمدللہ جاری و ساری ہیں۔
اس میدان میں ناقابل فراموش نقوش چھوڑنے والی ایک اور نابغۃ العصر شخصیت حضرت اقدس مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے ان کی ذات بابرکات میں اہل حق کے تینوں بڑے اکابر حضرت رائے پوریؒ ، حضرت تھانوی ؒ حضرت مدنی ؒ کا فیض جمع ہوا اور انہوں نے اکابر سے حاصل کردہ اس امانت کا خوب حق ادا فرمایا اور لاکھوں انسانوں کو معرفت الٰہی کے جام پلائے ان کے وصال کے بعد ان کے اہل علم عارف باللہ خلفاء کرام کے ذریعے یہ سلسلہ الحمدللہ جاری و ساری ہے۔ ان کے علاوہ بھی اہل حق اکابر میں سے کئی حضرات نے اس طریقے سے انسانوں کو انسان بنانے اور بندوں کو اللہ سے ملانے کا کام کیا اور خوب کیا اور الحمدللہ اب تک کررہے ہیں۔
خانقاہوں کے لئے خطرات
جو مسلمان کسی صاحب علم صاحب نسبت بزرگ سے بیعت کرلیتے ہیں اور پھر ان بزرگوں کے بتائے ہوئے عقیدے کو اپناتے ہیں اور ان کے بتائے ہوئے معمولات کو حرز جان بنالیتے ہیں اور اپنی زندگی ایمانی نور کی ان شمعوں کی روشنی میں گزارتے ہیں وہ ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے خوش قسمت لوگ نہ تو مذہبی فرقہ واریت میں اپناوقت ضائع کرتے ہیں اور نہ دو چار کتابیں پڑھ کر مجدد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان لوگوں پر انگریزی نظام تعلیم کی برائیاں بھی کھل جاتی ہیں اس لئے اگر وہ انگریزی تعلیم لیتے ہیں تو اسے ’’تعلیم‘‘ نہیں محض ’’فن‘‘ سمجھتے ہیں اور تعلیم صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ لسانیت اور علاقائیت سے بالاتر ہوجاتے ہیں کیونکہ جو شخص اللہ کی معرفت پالے وہ اللہ کے ماننے والے بندوں میں کسی طرح کی تفریق کا قائل نہیں ہوسکتا۔ جب بیعت اتنی مفید چیز ہے اور خانقاہوں سے یہ سب فائدے پہنچ رہے ہیں تو شیطان اور اس کے انسان نما ایجنٹ کس طرح سے یہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ دین خالص پر مبنی ان خانقاہوں کو تباہ کرنے کیلئے بھی وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے آزماتے ہیں۔ سب سے بڑا ہتھکنڈہ جو انہوں نے آزمایا ہے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
وہ ہے خانقاہوں میں خلفاء بنی امیہ اور خلفاء بنی عباس کی طرح وراثتی نظام کا اجراء۔ یعنی باپ کے بعد ہر حال میں بیٹا ہی گدی نشین ہوگا اگرچہ وہ گدی نشین تو درکنار گدھی نشین بننے کا اہل بھی نہ ہو۔ ظاہری طور پر یہ ایک معمولی سی بات ہے لیکن اس کے اندر بے شمار فتنے چھپے ہوئے ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے لوگوں نے اب پیری کو ایک منصب اور عہدہ سمجھ لیا ہے جو کسی شخص کی ذاتی جاگیر ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وراثت کے قانون کے مطابق یہ جاگیر اس کی اولاد کو منتقل ہوجاتی ہے۔ حالانکہ پیری کوئی منصب یا عہدہ نہیں بلکہ ایک روحانی مقام ہے جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل عام طور پر بے حد مجاہدے محنت اور نفس کشی سے متوجہ ہوتا ہے اور اس میں ضروری نہیں ہے کہ اگر کسی شخص پر اللہ کا یہ فضل متوجہ ہوا تو اس کی اولاد بھی بغیر محنت اور نفس کشی کے اس کی اہل بن جائے گی۔
پیری مریدی کا مقصد تو دنیا کی محبت سے دامن چھڑانا تھا مگر اب مال کی ریل پیل نے اسے ایک جاگیر بنادیا ہے چنانچہ اسی سوچ اور اسی نظام نے اب تک کئی بڑی بڑی خانقاہوں کو بے نور اور ویران کردیا ہے۔ نااہل صاحبزادے اپنے باپ کے مریدین کا مال بھی لوٹ رہے ہیں اور ان کا ایمان بھی تباہ کر رہے ہیں اس صورتحال پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے اہل حق سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں اس کے تدارک کی کوشش کریں اور اپنی اولاد کی اتنی عمدہ تربیت کریں کہ وہ اپنے بڑوں کی جگہ صحیح طرح سے سنبھال سکیں اور اگر اولاد بے راہ روی اختیار کرلے تو اہل حق کو چاہئے کہ اپنی زندگیوں میں ہی ایسا انتظام فرمادیں جس کی بدولت ان کی بددین اولاد ان کے دینی کام کو تباہ نہ کرسکے اور ان کے دینی انوارات کی تاجر نہ بن جائے۔
دوسرا بڑا خطرہ جو خانقاہوں کو درپیش ہے وہ ہے ان خانقاہوں میں آہستہ آہستہ بدعات اور رسمی چیزوں کا داخلہ۔ اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ کچھ لوگ عقیدے کے بدعتی نہیں ہوتے البتہ مزاج کے بدعتی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اگر خانقاہوں پر اثر بڑھ جائے تو ان میں برکات کی جگہ بدعات لے لیتی ہیں کیونکہ برکت اور بدعت دونوں جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح جوڑ کی نیت سے بعض بدعات کو قبول یا برداشت کرلینا بھی قطعاً مناسب نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ اخلاص و للہیت کی ان درسگاہوں کو بدعات اور غلط رسومات سے پاک رکھنے کیلئے خوب سختی کی جائے کیونکہ اگر سختی نہ کی گئی تو ان مقدس خانقاہوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور خانقاہیں صرف خوانقاہیں بن کر رہ جائیں گی۔
تیسرا بڑا خطرہ جو خانقاہوں کو لاحق ہے وہ ہے معیار کی گراوٹ اوراحسان و سلوک کے مسلمہ اسلامی اصولوں سے انحراف۔
ہو یہ رہا ہے کہ بعض لوگ خانقاہی نظام کی افادیت سے متاثر ہوکر اسے ہر طریقہ اختیار کرکے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ نااہل افراد کو جلدی جلدی خلافت دے دی جائے تاکہ دنیا میں پیروں کی تعداد بڑھے۔ اس طرح خوابوں اور خیالات کو بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سلسلہ بہت ہی خطرناک ہے ایک نائی بھی اپنی دکان کی کرسی اپنے کسی نئے اور کام سے ناواقف شاگرد کے حوالے نہیں کرتا جبکہ خلافت تو بہت اہم معاملہ ہے لوگ پیر کے کہنے پر نجانے کیا سے کیا کرلیتے ہیں اور اگر خدانخواستہ پیر خود ہی انسان نہ بنا ہو تو معلوم نہیں وہ کتنے انسانوں کو تباہ کرے گا ضرورت تو اس بات کی ہے کہ معیار کو اور اونچا کیا جاتا مگر اب تو چار اچھے خواب سناکر بعض لوگ آسانی سے خلافت لے لیتے ہیں اور بعض کو اس لئے یہ تحفہ مل جاتا ہے کہ ان میں لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ہنر ہوتا ہے چنانچہ یہ سوچ کر کہ یہ آدمی خانقاہی نظام کو ترقی دے گا اسے خلافت سے نواز دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جب خود یہ شخص احسان و سلوک کے راستے کو نہیں سمجھا تو دوسروں کو کیا سمجھائے گا۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ جگہ جگہ یہ ناقص الایمان اور ناقص الاخلاق پیر بٹھانے کی بجائے امت کو حقیقی اولیاء اللہ سے روشناس کرایا جاتا اور یہ بات لازمی ہے کہ جب بھی کوئی حقیقی ولی لوگوں کو نظر آیا تو لوگ دیوانہ وار اس سے دین و ایمان اور اخلاص سیکھنے کیلئے ٹوٹ پڑے ، مگر چونکہ اب خانقاہی نظام سے زھد اور مجاہدے نکل رہے ہیں اور مالی ہدیوں نے تمام اصولوں پر سبقت پالی ہے اس لئے اب پیر ہونا بھی کشش کی بات ہے اور خلافت پالینا بھی دنیاوی سعادت سمجھا جاتا ہے۔ جب حالت یہ ہو جائے تو پھر تباہی اور انحطاط نے تو آنا ہی ہے۔ مگر الحمدللہ اب بھی کئی جگہوں پر اکابر ہی کی طرز پر لوگوں کی اصلاح کی جاتی ہے اور حقیقی اللہ والے لوگوں کو دنیا کی غلاظت سے بچا کر اللہ کے راستے پر ڈال رہے ہیں۔ مسلمانوں سے عموماً اور طلبہ سے خصوصاً درخواست ہے کہ وہ ایسے ہی اکابر سے بیعت کریں اور بیعت کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح استخارہ کرلیا کریں۔
ایک ضروری گزارش
ایک ضروری گزارش یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان فطری طور پر اولیاء اللہ سے محبت رکھتے ہیں مگر ان میں سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے کبھی بھی کسی صاحب علم ، صاحب نسبت ، متبع سنت ولی کو دیکھا ہی نہیں بلکہ نقلی پیر اور جعلی بابے دن رات ان لوگوں کو روحانیت کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر حضرات اولیاء کرام اپنے فیض کو عام کرنے کی کوئی ایسی ترتیب بنائیں جس سے دو دراز دیہاتوں کے رہنے والے بھی مستفید ہوسکیں تو بہت بڑا کام ہوگا۔ اگر یہ خانقاہیں کنویں کی بجائے بادلوں کا کام کریں تو ہمارے دیہاتی علاقوں میں پھیلی ہوئی دین سے جہالت اور شہری علاقوں کی بے راہ روی کافی حد تک کم ہوسکتی ہے۔ یہ تبھی ہوگا جب احسان و سلوک کو بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہونے کے ناطے لازمی سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کی اصلاح کا درد دلوں میں پیدا کیا جائے گا بس اسی مختصر اشارے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اللہ کرے یہ اشارہ ہی کافی ہوجائے۔


تیسرا انتظام دعوت و تبلیغ یا تبلیغی جماعت کا کام


اہل حق اکابر نے مسلمانوں کے دین و ایمان اور ان کے اسلامی تشخص کو بچانے کیلئے تیسرا اہم انتظام دعوت و اصلاح کے نظام کو منظم فرما کر کیا۔ اکابر کا یہ تجدیدی کارنامہ ’’تبلیغی جماعت‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لی جائے کہ یہ تینوں انتظام دین میں کوئی نئی ایجاد نہیں تھے بلکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو امور لازم فرمائے ہیں انہی کی ادائیگی کو ممکن بنانے کیلئے یہ انتظامات کئے گئے تھے۔ چنانچہ اس آخری انتظام کو ہی لے لیجئے۔ مسلمانوں کو یہ یاد دلانا کہ وہ مسلمان ہیں اس لئے اسلام ہی کواوڑھنا بچھونا بنائیں اور اپنی زندگیوں میں اسلام لانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کی دعوت بھی دیں یہ ایک ضروری کام ہے اور اس کام کو کرنے میں مسلمانوں کے دین و ایمان کی بے انتہا حفاظت ہے مگر جب بھی مسلمان اس کام سے غافل ہوجاتے ہیں وہ طرح طرح کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ انگریزی سازشوں کی وجہ سے برصغیر کے اکثر مسلمان بھی اس کلمے کا مفہوم بھولتے جارہے تھے جو ایمان میں داخلے کا دروازہ ہے۔ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے تو تھے مگر نہ تو اسے سمجھتے تھے اور نہ اس کا یقین رکھتے تھے دوسروں کو دین کی بات بتانا تو درکنار خود دین پر عمل کرنا ایک مشکل کام بن گیا تھا۔ جعلی پیروں نے اور زیادہ جہالت اور بددینی پھیلادی تھی۔ لوگ نماز جیسا فرض چھوڑ کر بھی کسی قبر پر چادر چڑھا لینے کو جنت کی ضمانت سمجھتے تھے۔ دیہاتوں کی مسجدیں ویران پڑی تھیں اور ان میں سے کئی مساجد میں مویشی باندھے جاتے تھے۔ مسلمانوں کی کئی کئی بستیوں میں مردوں کو اس لئے بغیر جنازے کے دفن کیا جارہا تھا کہ وہاں کوئی جنازہ پڑھانے والا نہیں تھا۔ ہندوؤں کی رسومات من و عن مسلمانوں میں جاری و ساری ہوتی جارہی تھیں خلاصہ یہ ہے کہ انگریز نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو مسلمان نہ رہنے دو چنانچہ یہی منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ لاکھوں انسان نام کے مسلمان تھے مگر ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسلام ہے کیا؟ کلمہ کیا ہے؟ کلمے کا مطلب کیا ہے؟ ان دردناک حالات میں اللہ تعالیٰ نے اہل حق میں سے حضرت مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کے دل میں مسلمانوں کی حالت زار پرکڑھن بھی ڈالی اور انہیں مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ایک سادہ مگر موثر طریقہ بھی الہام فرمایا چنانچہ حضرت مولاناؒ نے میوات کے علاقے سے یہ کام شروع کیا آپ سنت کے مطابق راتوں کو گریہ و آہ و زاری میں مصروف رہتے اور دن کو مسلمانوں کے دروازوں پر جاکر انہیں یاد دلاتے کہ وہ مسلمان ہیں اور انہوں نے کلمہ پڑھا ہے وہ منت سماجت کے انداز میں مسلمانوں کو یہ دعوت دیتے کہ وہ اسلام پر عمل کریں اور اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ بظاہر یہ سیدھا سادہ کام تھا مگر جس فکر سے اس کا آغاز ہوا تھا اور جس اخلاص پر اس کی بنیاد رکھی گئی وہ بہت اونچا تھا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کام ایک سینے سے دوسرے سینے، ایک زبان سے دوسری زبان اور ایک مسجد سے دوسری مسجد تک پھیلتے پھیلتے ملکوں اور نسلوں کی حدود کو بھی پھلانگ گیا اور چار دانگ عالم میں اس عظیم کام کا نور مسلمانوں کو جہالت اور بددینی سے بچانے لگا۔ حقیقت میں امت مسلمہ کو اس کام کی اشد ضرورت تھی اور آج بھی اس کی ضرورت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ تبلیغی جماعت کے مبارک اثرات الحمدللہ وہاں تک پہنچ رہے ہیں جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ صرف اخلاص کی برکت ہے اور اتباع سنت کا بہترین نتیجہ ہے۔
تبلیغی جماعت نے ہمیشہ اہل علم کی سرکردگی میں کام کیا ہے اور شریعت کی حدود میں رہنے کو سب سے زیادہ ترجیح دی ہے کلمے کی مسلسل دعوت نے ان کے ایمان کو ایسی پختگی عطا فرما دی ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی طرح کے دنیاوی آلات اور مروجہ طریقوں کے آج تک محتاج نہیں ہوئے بلکہ جس نہج پر کام شروع ہوا تھا آج بھی اسی نہج پر رواں دواں ہے۔ غیر شرعی آلات کا استعمال تو دور کی بات وہ مباح آلات بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ اللہ کی مدد اور خالص انسانی صلاحیتوں کے استعمال سے اپنے اس قدر عظیم الشان کام کو چلا رہے ہیں۔ حقیقت میں تبلیغی جماعت کا کام مسلمانوں کے لئے ایک نعمت اور دین کا درد رکھنے والوں کے لئے ایک مرہم ہے۔ ہم جب مسلمانوں کی حد سے بڑھی ہوئی بے راہ روی کا سنتے ہیں تو دل پریشان ہو جاتا ہے آج بھی کتنے علاقے ہیں جہاں اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی آج بھی کتنے علاقے ہیں جہاں مسلمان بستے ہیں مگر بے حیائی اور جنسی بے راہ روی میں ان دیہاتوں نے یورپ کی طرز اپنا رکھی ہے لاکھوں مسلمان قبروں پر سجدے کررہے ہیں یہ سب کچھ سن کر اور دیکھ کر دل بیٹھنے لگتا ہے پھر اچانک یہ خیال آتا ہے کہ کسی نہ کسی دن تبلیغی جماعت کے جانباز ان پہاڑوں اور وادیوں میں نور بن کر اتریں گے اور وہاں کی ظلمتیں کا فور ہو جائیں گی۔ پھر دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تبلیغی جماعت کو اور زیادہ ترقی عطا فرمائے اوران کے کام میں اور زیادہ برکت عطا فرمائے۔ اگرچہ جماعت کا کام ماشاء اللہ مشرق و مغرب میں پھیل چکا ہے لیکن ابھی تک بہت سارے علاقے اور بہت سارے مسلمان اس جماعت کے منتظر ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں ابھی اس کام کو اور بڑھانے کا تقاضا موجود ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ بڑھ چڑھ کر اس کام میں حصہ لیں اور جس حد تک ہوسکے خود کو تبلیغی جماعت کے کام سے منسلک کریں اور طلبہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس کام کو اپنا کام سمجھیں اور آگے بڑھ کر اس کام کو سنبھالیں کیونکہ خدانخواستہ خدانخواستہ اگر یہ عظیم کام اہل علم کی قیادت سے محروم ہوگیا تو مسلمانوں کو فتنوں کی ایک اور سیاہ رات دیکھنی پڑ سکتی ہے۔
تبلیغی جماعت کے لئے بعض خطرات
تبلیغی جماعت کا مبارک کام الحمدللہ پورے زور و شور اور اخلاص کے ساتھ جاری ہے اور ہر آئے دن اس میں ترقی ہو رہی ہے جو بہت خوش آئند بات ہے اور اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن پر اگر قابو نہ پایا گیا اورابھی سے ان کا راستہ نہ روکا گیا تو اس عظیم کام کی قوت اور افادیت شدید متاثر ہوگی اور یہ کام داخلی اختلافات اور بے اصولی کا شکار ہو جائے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ امت مسلمہ کے لئے بڑی محرومی اور بد قسمتی کی بات ہوگی (اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے آمین) سب سے بڑا خطرہ جو تبلیغی جماعت کو لاحق ہے وہ ہے ان بنیادی اصولوں سے انحراف کا آغاز جن پر اس کام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ مثال کے طور پرتبلیغی جماعت شروع سے اس اصول پر کار بند ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کی خوامخواہ مخالفت نہ کی جائے بلکہ اگرکوئی مخالفت کرے تو اسے بھی جواب نہ دیا جائے۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ تبلیغ کا یہ کام خالص دینی خیر خواہی پر مبنی ہے اور اس میں تصادم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت نے اس زریں اصول کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ لوگوں نے انہیں گالیاں دیں ان کے بستر مساجد سے نکال کر باہر پھینک دیئے ، بعض جگہوں پر انہیں جسمانی ایذا بھی پہنچایا ، ان کے خلاف سخت کتابیں لکھیں مگر جماعت کے احباب ہر ستم کو مسکرا کر سہتے رہے اور انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ بھی خیر خواہی کی جو ان کے خلاف یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ الحمدللہ تبلیغی جماعت کا یہ صبر کام آیا اور ان کے مخالفین یا تو خود معدوم ہوگئے یا انہیں ذلیل ہونا پڑا جبکہ تبلیغی احباب اپنا وقت ضائع کئے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے مگر اب دیکھنے میں آ رہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے بعض افراد اپنی بڑھتی ہوئی قوت یا پھیلتے ہوئے کام سے متاثر ہوکر اس اصول کو چھوڑتے چلے جا رہے ہیں بیانات میں اب عاجزی کی بجائے جارحانہ انداز آتا جارہا ہے۔ جہاد اور مجاہدین کی کھل کر مخالفت کی جاتی ہے جن مساجد میں جماعت کو قوت حاصل ہے وہاں علماء کرام کے درس بند کرادیئے جاتے ہیں اور بعض اوقات تو مدارس اور خانقاہوں پر بھی زبان چلائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ حیرتناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ معلوم نہیں کس ظالم نے اس مبارک کام میں سبّ و شتم اور تبّرا بازی کی رسمِ مذموم شروع کی ہے یقینا یہ ایک بڑی غلطی ہے بلکہ خودکشی کی طرف پہلا قدم ہے پھر اس غلطی کے پیچھے سے ایک اور غلطی جنم لے رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ تبلیغ والے صرف فضائل بیان کرتے تھے اور دلائل میں الجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے چنانچہ سالہا سال کی محنت نے انہیں بے شک فضائل سمجھانے کا بہترین اہل بنادیا ہے اور دلائل میں نہ پڑنے کی وجہ سے وہ اختلافات سے محفوظ رہتے ہیں۔ تبلیغ والوں کا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ ہم فضائل بتاتے ہیں مسائل علماء کرام سے پوچھیے مگر جب سے تبلیغ والوں نے جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اور دین کے بعض شعبوں کی مخالفت شروع کردی ہے اس وقت سے وہ دلائل میں بھی الجھ گئے ہیں حالانکہ دلائل میں ان کی حالت بہت پتلی ہے چنانچہ وہ کمزور دلائل سے بات کرتے ہیں جس سے مخالفین کو ان پر گرفت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ آج تبلیغی جماعت کے خیر خواہ درد مندی کے ساتھ پوچھ رہے ہیں کہ آخر آپ لوگوں کو مخالفت اور دلائل میں پڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا آپ لوگ حضرت مولانا الیاسؒ اور حضرت مولانا یوسفؒ سے بڑھ کر تبلیغ کے کام کو سمجھتے ہیں؟ کیا فضائل کے بیان سے لوگ دین پر نہیں آرہے تھے؟ کیا جہاد کی مخالفت کئے بغیر یہ کام آگے نہیں بڑھ رہا تھا؟ یقیناً یہی جواب ملے گا کہ مخالفت کے بغیر ہی تو کام اس مقام پر پہنچا ہے۔ تو جب مخالفت کے بغیر کام تیزی سے بڑھ رہا تھا تو اب اچانک علمیت دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟۔
بڑے علماء کو تو چھوڑیے آج عام تاجر کھڑے ہوکر مکی زندگی اور مدنی زندگی کے باریک فرق ، حسن لِعَیْنِہٖ اور حسن لغیرہ کی فقہی اصطلاحات ، جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی بحث ، دفاعی اور اقدامی جہاد کے فرق پر بے لاگ اور فضول تبصرے کرتے ہیں اور سمجھنے والوں کو اپنے اوپر ہنسی کا موقع دیتے ہیں۔ والی اﷲ المشتکی۔ ایک زمانہ تھا جب تبلیغی جماعت کی دعوت ایسی پختہ اور محکم ہوتی تھی کہ کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا دشمن بھی سرجھکا کر کہتے تھے کہ بات تو یہ لوگ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اکابر کی طرف سے تمام تبلیغی احباب کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ چھ نمبروں سے باہر بات کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب تبلیغی احباب کا بیان کم اور آنسو زیادہ دیکھنے کو ملتے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ایک عام سادہ سا آدمی کھڑے ہوکر یہی بات بار بار دھراتا تھا کہ بھائیو! اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہم سب میں پیدا ہو جائے اور ہم سب سیکھنے کیلئے نکلے ہیں اور لوگ اس کی اتنی سی بات پر پوری زندگی لکھا دیتے تھے لیکن اب شاید تبلیغی جماعت والے عام خطیبوں سے متاثر ہوکر نئی نئی تقریریں کرنے کے شوق میں اپنا سوز کھوتے جارہے ہیں یا ان سے اپنے بڑے بڑے مجمعے دیکھے نہیں جا رہے بلکہ انہیں اپنی قوت اور کثرت پر ناز ہونے لگا ہے اس لئے ان کے انداز میں جارحیت آگئی ہے۔ اسی لئے کل تک انہیں مسجدوں سے نکالا جاتاتھا اب وہ دوسروں کو نکال رہے ہیں کل تک ان کی مخالفت کی جارہی تھی آج وہ دوسروں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ نہ تو دین کے مفاد میں ہے نہ امت مسلمہ کے مفاد میں ہے اور نہ تبلیغی جماعت کے مفاد میں ہے بلکہ حقیقت میں یہ ایک خوفناک شیطانی سازش ہے جو اس عظیم کام کو امت سے چھیننے کے لئے رچائی گئی ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ سازش کامیاب ہو جائے گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک جماعت میں جب منافق گھس سکتے ہیں تو کوئی جماعت اپنے آپ کو کس طرح محفوظ سمجھ سکتی ہے؟ لیکن یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ ایسے اصول سختی سے مقرر کئے جائیں جن پر افراد کا اثر نہ پڑ سکے تبھی منافقین کی ریشہ دوانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ تبلیغی جماعت کا کام اسرائیل تک پہنچ جائے ، امریکہ کی بنیادوں تک اس کی رسائی ہو جائے اور اسلام دشمن طاقتیں خاموش بیٹھی رہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ اسلام دشمن طاقتیں تبلیغی جماعت کو بھی اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں کیونکہ تبلیغی جماعت کے خاموش انقلاب نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس لئے کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے اپنے ایجنٹ اس میں گھسانے کی کوشش کی ہو اور یہ بات سمجھ میں بھی آرہی ہے کہ آخر یہ اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیسے آگئی۔ تبلیغی جماعت کی تو پہچان یہی تھی کہ یہ اللہ والے ہیں یہ دین والے ہیں وجہ یہ تھی کہ تبلیغ والے بس دین ہی کی فکر رکھتے تھے اور دین کی خاطر مرتے جیتے تھے مگر اب بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہیں دین سے زیادہ تبلیغی جماعت کی فکر ہے ان کے نزدیک دین کی وہ اہمیت نہیں ہے جو تبلیغی جماعت کی ہے اس لئے اگر وہ کسی اور طریقے سے دین کا کام ہوتا دیکھتے ہیں تو خوش ہونے کی بجائے دل تھام کر رہ جاتے ہیں اور حسب استطاعت مخالفت بھی کرتے ہیں ’’ولاحول ولاقوۃ الاباللہ‘‘ ایک وقت تھا جب تبلیغی جماعت کے اکابر کو بعض غلط فرقوں کی طرف سے جماعت کے مقابلے میں کام شروع کرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے نماز پڑھ کر دعا کی کہ یا اللہ اگر یہ لوگ صحیح ہیں اور اخلاص پر ہیں تو انہیں کامیابی عطا فرما اور آج یہ ماحول ہے کہ کوئی صحیح العقیدہ عالم دین اس مسجد میں قرآن مجید کا درس نہیں دے سکتا جس کی کمیٹی میں تبلیغی جماعت کے افراد کی اکثریت ہو۔ بلکہ مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اگر کوئی عالم دین اپنی مسجد میں اپنے طور پر دین کا کام کررہا ہو اور وہ مقبول ہو گیا ہو اور لوگ اس کی بات سن رہے ہوں تو اس عالم کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ انفرادی کام کررہا ہے اور لوگوں کو اجتماعی کام سے روکنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ خود راقم الحروف کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو مخلص تبلیغی احباب نے گانا سننے سے لیکر حد درجہ گھناؤنے الزامات لگا دیئے چنانچہ مجھے مجبوراً منبر پر قسم کھاکے ان الزامات سے اپنی برات کا اعلان کرنا پڑا بعض افراد جو ان الزامات میں شریک تھے جب کچھ نادم ہوئے تو دوسرے تبلیغی احباب نے انہیں تسلی دی کہ ہم نے یہ جھوٹ اجتماعی کام کے فائدے کیلئے بولا تھا۔ اللہ گواہ ہے کہ میں اس واقعہ کو کبھی بھی نہ لکھتا اگر یہ واقعہ صرف میرے ساتھ پیش آیا ہوتا لیکن یہ واقعہ ایسے ایسے اکابر اور فرشتہ صفت بزرگوں کے ساتھ بھی پیش آیا جن کا نام میں الزامات کے حوالے سے لکھنا ان کی توہین سمجھتا ہوں اس لئے میں نے خود کو بطور مثال کے پیش کیا تاکہ میرے اکابر کا نام جھوٹے الزامات کے ساتھ بھی نہ لکھا جائے۔ تو آخر یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا مولانا الیاسؒ صاحب کی تبلیغی جماعت یہ سب کچھ کرسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ بعض ایسے افراد اونچی سطح تک پہنچ چکے ہیں جو اس کام کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان سابقہ بیورو کریٹوں اور تاجروں کا اثر بعض بڑے خطباء پر بھی پڑ رہا ہے۔ کاش جماعت کے اکابر حضرات اس مسئلے کی طرف فوراً توجہ فرمائیں کاش ان اکابر تک میری یہ درد مندانہ گزارش کوئی من و عن پہنچا دے کیونکہ ابھی اس فتنے کو قابو میں کرلینا آسان ہے۔ صرف نظام الدین اور رائے ونڈ سے اتنا اعلان ہی اس فتنے کا گلا دباسکتا ہے کہ کوئی بھائی علماء کرام کی مخالفت نہ کرے کوئی بھی جہاد کے خلاف اپنے بیان میں کسی طرح کی بات نہ کہے مدارس اور خانقاہوں کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور دین کو اصل سمجھیں کسی مخصوص جماعت کو نہیں۔ اور پھر اعلیٰ سطح پر شوریٰ میں صرف مضبوط علم والے علماء کرام کو رکھا جائے جنہوں نے حضرت مولانا الیاس ؒ اور حضرت مولانا محمدزکریاؒ کی طرح محنت سے علم پڑھا اور پڑھایا ہو اور دین کو اچھی طرح سمجھا ہو اور ان علماء کو شوریٰ میں نہ رکھا جائے جو مدرسہ سے فارغ ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ مولانا تو لکھواتے ہیں مگر ساتھ ساتھ اس پر فخر کرتے پھرتے ہیں کہ ہم مدرسے میں فیل ہوتے تھے مگر پھر بھی اللہ ہم سے اتنا سارا کام لے رہا ہے۔ اور غیر علماء میں سے صرف انہیں کو شوریٰ میں رکھا جائے جنہوں نے بڑے اکابر کے ساتھ رہ کر کام کیا ہو اور دنیا داری میں ملوث و مصروف نہ ہوں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تبلیغی جماعت کا کام بڑی نعمت اور ایک بھاری امانت ہے چنانچہ اس نعمت اور امانت کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے جو کچھ اوپر عرض کیا گیا ہے وہ اسی ذمہ داری کو نبھانے کی دعوت ہے امید ہے کہ ناز اور غرور کی بجائے محبت اور تواضع کے ساتھ ان گزارشات پر غور فرمایا جائے گا کیونکہ اگر اس کام کو نقصان پہنچا تو یہ پوری امت کا نقصان ہوگا اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح تبلیغی جماعت کے مخالفین اس کی مخالفت کرکے اسے نقصان نہیں پہنچا سکے اسی طرح تبلیغ والے بھی کسی دینی کام کی مخالفت کرکے اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ اپنے اس عظیم کام کا نقصان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پوری امت کی بھلائی کیلئے جاری فرمایا ہے کاش تبلیغی احباب اس نکتے کو سمجھ لیں جسے وہ کل تک دوسروں کو سمجھاتے تھے۔

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔




آخری گزارش
ہم نے اوپر جو کچھ عرض کیا ہے وہ محض خیرخواہی پر مبنی ہے تبلیغی جماعت سے ہمارا تعلق خالص قلبی اور دینی ہے اور حقیقت میں ہمیں اس جماعت سے بے حد لگاؤ ہے۔ ہم نے اس کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے وہ دل کی آواز ہے اس کا مقصد ۔ ۔ ۔ تبلیغی جماعت والوں کی نظر میں محبوب بننا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ الحمدللہ ہمیں دین سے محبت ہے اور تبلیغی جماعت دین کی خوب خدمت کررہی ہے اور جو باتیں ہم نے تبلیغی جماعت کیلئے خطرات کے عنوان سے عرض کی ہیں ان کا مقصد اس مبارک جماعت کو فتنوں اور داخلی انتشار سے بچانے کیلئے اپنی سی ایک کوشش کرنا ہے۔ اس مضمون کے بعدتمام قارئین سے دوٹوک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ میری باتوں کو تبلیغی جماعت کی مخالفت برائے مخالفت کیلئے ہرگز استعمال نہ کریں اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ عنداللہ خود ہی ذمے دار ہوگا۔ اسی طرح اہل علم حضرات سے خصوصی گزارش ہے کہ وہ اس مبارک جماعت کو مذکورہ بالا بعض غلطیوں سے پاک کرنے کیلئے مثبت اور تعمیری کوشش جاری رکھیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ انشاء اللہ تبلیغی جماعت کے اکابر ان غلطیوں کو مستقل درد سر بننے سے پہلے ہی درست فرمالیںگے۔
’’وماتوفیقی الاباللہ علیہ توکلت و الیہ انیب‘‘
تینوں انتظامات پر ایک اجتماعی نظر
آپ اب تک یہ پڑھ چکے ہیں کہ انگریز نے برصغیر کے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے، انہیں اپنا ذہنی غلام بنائے رکھنے اور انہیں اسلام سے دور کرنے کیلئے جو تین سانپ مسلط کئے تھے اہل حق نے ان سے مسلمانوں کے تحفظ اور دفاع کیلئے مذکورہ بالاتین انتظامات فرمائے۔
آزادی کے پچاس سال بعد کی صورتحال یہ ہے کہ انگریز کے تینوں سانپ جوں کے توں اپنے پھن پھیلائے کھڑے ہوئے ہیں اور دن رات مسلمانوں کو ڈس رہے ہیں۔ انگریزی نظام تعلیم نے ملحدوں ، بددینوں اور دنیا پرستوں کے گروہ برصغیر کے طول و عرض میں پھیلا دیئے ہیں مذہبی فرقہ واریت آئے دن بڑھتی ہی جارہی ہے اور لسانیت اور علاقائیت کا سانپ جاگیرداروں کے اقتدار میں خوب پل کر توانا ہوچکا ہے۔ میں یہاں جیل کے ایک سیل میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور اس وقت ملکہ برطانیہ پاکستان میں دندناتی پھر رہی ہے اور اس کے ذہنی غلام ہاتھ باندھے اس کے آگے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ یہ مضمون تو میں نے کئی دن سے شروع کررکھا ہے مگر اب آزادی کے موقع پر ملکہ کا برصغیر میں والہانہ استقبال ان باتوں کے ثبوت کیلئے ایک اور شہادت ہے جو میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔ بہرحال جب تک یہ تین سانپ موجود ہیں اور طاقتور ہیں اس وقت تک نہ تو اس آزادی کو مکمل کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر نے انگریز کی غلامی کا طوق گلے سے نکال پھینکا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اہل حق کے مذکورہ بالا تین انتظامات کی بدولت انگریز کے بھی سارے خواب پورے نہیں ہوئے اور وہ برصغیر کو افریقہ کے اکثر نو آبادیاتی ممالک کی طرح بالکل تباہ و برباد نہیں کرسکا۔ برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس گلی کوچوںاورپہاڑوں ، وادیوں میں بستر اٹھا کر پھرنے والی ہزاروں تبلیغی جماعتوں اور جگہ جگہ آباد حقیقی خانقاہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق کروڑوں مسلمانوں کا ایمان بچایا ہے اور انہیں انگریزی سانپوں کے زہر سے بچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ تینوں کام اس سطح پر نہیں ہوئے جس سطح پر ہونے چاہئے تھے اور نہ ہی برصغیر میں یہ تینوں کام اتنے طاقتور ہوسکے کہ وہ انگریزی سانپوں کی موت بن جاتے مگر ان کا وجود بہرحال ایک عظیم رحمت ثابت ہوا کیونکہ اگر یہ تین منظم انتظامات نہ ہوتے تو برصغیر کی وہ حالت ہوتی جسے سوچ کر روح تڑپ جاتی ہے آپ افریقہ کے کسی ایسے ملک کا سفر کیجئے جہاں انگریزوں نے حکومت کی ہے اب وہاں سوائے فحاشی ، بے حیائی ، چوری چکاری اور انتہائی غربت کے اور کچھ نظر نہیں آتا مگر الحمدللہ برصغیر میں لاکھوں خالص مسلمان نظر آتے ہیں لاکھوں مساجد آباد ہیں ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ موثر دین دار افراد مل جاتے ہیں گلی کوچوں میں عمومی فحاشی اور بے حیائی کے وہ مناظر بھی دیکھنے میں نہیں ملتے جو انگریز چاہتا تھا اور بھی بے شمار خیریں اور بھلائیاں ہیں جو ان تین انتظامات کی بدولت ہمیں نصیب ہوئی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کا پورا معاشرہ اور یہاں کا ہر فرد چاہتے ہوئے یا بن چاہے ان تین انتظامات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور فیض یاب اور متاثر ہوا ہے۔ مگر آزادی اور غلامی کی یہ جنگ آج پچاس سال کے بعد بھی جاری ہے انگریز کے تینوں سانپ بے پناہ وسائل اور حکومتی سرپرستی میں غلامی کی سیاہ رات کا تحفظ کر رہے ہیں جبکہ اہل حق کے جلائے ہوئے تین چراغ بے سروسامانی اور کمزوری کے باوجود آزادی کی صبح کیلئے دن رات جدوجہد کررہے ہیں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ فیصلہ کن معرکہ کب ہوگا؟ لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ یہ وقت بھی اب قریب آچکا ہے۔ مدارس ، تبلیغی جماعت اور خانقاہوں اور ان تینوں سے منسلک باقی دینی کاموں کو شروع کرتے وقت اکابر کے ذہن میں اس آخری معرکے کے لئے تیاری کا عزم موجود تھا وہ ان کاموں کے ذریعے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بناکر انہیں جہاد کیلئے کھڑا کرنا چاہتے تھے کیونکہ جہاد ہی اسلام کی عظمت کا واحد راستہ ہے لیکن جہاد کی اہمیت اور حقیقت تو وہی سمجھتا ہے جو خود مسلمان ہو اس لئے ان تین انتظامات کے ذریعے پہلی محنت یہ کی گئی کہ مسلمانوں کو مسلمان بنایا جائے اور انہیں دینی قیادت فراہم کی جائے جبکہ دوسرا مرحلہ یہی تھا کہ جب افرادی قوت منظم ہوجائے گی تو پھر جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے خلافت اسلامیہ اور حکومت الہیہ کے لئے کوشش کی جائے گی اب تک یہ تینوں انتظامات پہلے مرحلے کی محنت میں مصروف تھے مگراب ان کے فیض یافتہ افراد نے دوسرے مرحلے کی طرف بھی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ الحمدللہ افغانستان میں چونکہ پہلے مرحلے کی محنت بہت طاقتور تھی اس لئے دوسرے مرحلے میں انہیں عظیم تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور الحمدللہ وہ افغانستان کے بیشتر حصوں پر حکومت الہیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ (اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابی اور توفیق عطا فرمائے) چنانچہ انہیں حالات کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب برصغیر کے باقی حصوں خصوصاً پاکستان میں آزادی کے نقیبوں اور غلامی کے محافظوں کے درمیان فیصلہ کن معرکے کا وقت قریب ہے۔ اس معرکے کی شکل کیا ہوگی فی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ حالات خود ہی اس کی شکل کا تعین کریں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پاکستان کے عوام کیلئے مکمل آزادی اور خیروعافیت کی دعا کرتے ہیں۔
آخری گزارش
غیور مسلمان بھائیو! عزیز طالب علم ساتھیو! پوری صورتحال آپ کے سامنے آچکی ہے بس اب ضرورت پہلے رونے اور پھر رلانے کی ہے۔ بے شک انگریز سے آزادی ایک بڑی نعمت ہے اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے مگر اپنے دل میں یہ کڑھن، فکر اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ آزادی نامکمل ہے۔ چنانچہ اس پر رونے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں ابھی تک انگریز ہی کا ناپاک قانون چل رہا ہے اور یہ پاک ملک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک شریعت کے نفاذ سے محروم ہے۔ یقین جانیے اگر یہ فکر اور یہ کڑھن آپ کے دلوں میں پیدا ہوگئی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور آپ کو یہ احساس ہو گیا کہ واقعی انگریز کے مسلط کردہ تینوں سانپ ہماری مسلمان ملت کا کس خوفناک طریقے سے صفایا کررہے ہیں تو ہم کامیابی کی ایک منزل طے کرلیں گے اسی منزل کو ہم نے’’ پہلے رونے‘‘ سے تعبیر کیا ہے اب اس کے بعد دوسری منزل اپنے دشمنوں کو رلانے کی ہے یہ تب ہوگا جب ہم فکر اور کڑھن پیدا ہونے کے بعد اس ملک اور پھر اس کے ذریعے پورے برصغیر کی آزادی کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیں گے اور وہ تمام اقدامات کریں گے جو کسی مشن کی تکمیل کیلئے کئے جاتے ہیں ان میں سے بعض اقدامات فوری نوعیت کے ہیں مثلاً مدارس ، خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کو مضبوطی اور ترقی دینا ، ان تمام کا باہم ربط پیدا کرنا ، ان تینوں کے نظام تربیت کو ایسا بنانا کہ ان کے فیض یافتہ افراد اللہ کے راستے میں جان دینے کا جذبہ رکھتے ہوں اور ان تینوں کی حفاظت کیلئے وہ اقدامات کرنا جن کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح اپنے سیاسی پلیٹ فارم کومضبوط اور فعال بنانا بھی فوری نوعیت کا کام ہے اسی طرح مساجد کے منبرومحراب سے مسلمانوں کی اس نہج پر تربیت کرنا کہ انہیں بھی مکمل آزادی کی اہمیت کا احساس ہو اور وہ شعوری مسلمان بن سکیں اور انہیں یہ معلوم ہو کہ دین اسلام دنیا میں غالب ہونے کیلئے آیا ہے۔ اور اس موضوع پر لٹریچر فراہم کرنا وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ بعض کام طویل المیعاد ہیں مثلاً سکولوں اور کالجوں میں خالص دینی تعلیم کا بندوبست کروانا اور اعلیٰ فکرو کردار کے افراد کو اس کام پر مامور کرنا۔ چھوٹی عمر کے فارغ التحصیل دینی طلبہ کو دنیاوی تعلیم دلا کر مختلف حکومتی عہدوں اور فوج تک ان کی رسائی کو ممکن بنانا عوامی تربیت گاہوں اور تربیتی نشستوں کا باقاعدہ ایک ایسا جال بچھانا جو خاص فکر ، خاص و ضع اور خاص طرز کا حامل ہو یہ جال ہندوستان میں ستر سال پہلے متعصب مشرکوں نے پھیلایا تھا جس کے نتیجے میں آج بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) اقتدار کی دہلیز تک جاپہنچی ہے۔ ہم خدانخواستہ مشرکوں کی پیروی کرنے کی دعوت نہیں دے رہے لیکن یہ ضرور بتانا چاہتے ہیں کہ جو کام مسلمانوں کوکرنا چاہئے تھے وہ مفادپرست مشرکوں نے کرنا شروع کردیا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ظاہری فائدے اٹھا رہے ہیں۔ اگر ہم نے فوری نوعیت والے کام بھی کرلئے اور طویل المیعاد کام بھی شروع کردیئے تو انشاء اللہ بہت جلد پاکستان کی داخلی صورتحال بدل جائے گی جس کے اثرات دور دور تک پڑیں گے اور مکمل آزادی حاصل کرنے کی منزل جوں جوں قریب آتی جائے گی اتنا ہی دشمن کو رونا پڑے گا۔ اور اس کے مسلط کردہ سانپ خود اسی کیلئے وبال بن جائیں گے یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ انفرادی طور پر ماشاء اللہ خوب کام ہو رہا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ فکروشعور میں اتحاد ہو اور تمام کوششیں باہم مربوط اور منظم ہوں اور قیادت بھی متحد ہو۔ ابتدائی مرحلے میں فی الحال دو کام تو آسانی سے کئے جاسکتے ہیں اور وہ ہیں فکر کا اتحاد اور آزادی کیلئے ہونے والی کوششوں کا باہمی ربط اور جب یہ کام ہوجائیں گے تو انشاء اللہ متحدہ قیادت بھی فراہم ہوجائے گی۔
آخر میں ہم جھولی پھیلا کر رب العالمین کے حضور دعا کرتے ہیں یا رب العالمین آپ کی توفیق اور رحمت کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے اور اگر آپ نظر کرم فرمائیں اور ہمیں توفیق عطاء فرمائیں تو ہم آپ کی رضا کی خاطر روئے زمین کی ساری تاریکیوں کو آپ کے پیارے دین کی روشنی سے مٹا سکتے ہیں یا اللہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ ہم زندہ ہیں اور آپ کے احکامات کی جگہ کفار کے قوانین نافذ ہیں یا اللہ ہمیں اپنے ملک میں خصوصاً اور پوری دنیا میں عموماً اپنے دین کے غلبے اور اس کے نفاذ کی کڑھن اور فکر عطاء فرما دیجئے۔ کیونکہ اس فکرکے بغیر ہمارا ایمان اور ہمارا دین نامکمل ہے اور ہم آپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ یااللہ امت محمدیہ پر رحم فرما اور ہمیں اپنے راستے میں جہاد فی سبیل اللہ کی توفیق عطافرما۔ تاکہ ہم نفاق کے دھبوں سے پاک ہوکر آپ کے سامنے حاضر ہوں۔ یااللہ ہم سے نفاذ شریعت کا مبارک کام لے لیجئے۔ اے آسمانوں کو تھامنے والے عظیم پروردگار آپ ہمارے لئے آسان فرما دیجئے اور ممکن بنا دیجئے کہ ہم شریعت کو نافذ کریں۔ اپنی ذات پر ، اپنے خاندان پر ، اپنے معاشرے پر ، اپنے ملک پر ، اور تمام عالم پر (آمین یا رب العالمین)
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیرخلقہ سید نا محمد
و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین
(۹ جمادی الثانی ۱۴۱۸ھ بمطابق ۱۲! اکتوبر ۱۹۹۷ء یوم الاحدبوقت صبح دس بجکر۳۴منٹ)



۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔